بلوچ عورت مارچ کا منشور

تحریر: رضوانہ بلوچ

عورت مارچ کا منشور یہ نہیں کہ مردوں کو نیچا دکھایا جاٸے یا ان سے مقابلہ بازی کی جاٸے، بلکہ عورت مارچ کا منشور یہی ہے کہ عورت کو سماجی،معاشی، سیاسی، فطری، اخلاقی، تعلیمی آزادی اور سماج میں برابری چاہیے۔ عورت کو تابعداری اور تحکمانہ رویوں سے نجات چاہیے۔
اس دھرتی پر اس سماج میں بہت زیادہ اذیت برداشت کرنے والی انسان عورت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ عورت پر کٸی اور سماجی جابرانہ بندشیں بھی مسلط کر دیئے گئے ہیں مثلاً چھوٹی عمر میں شادیاں کروانا، ناپسند کی شادی کروانا، غیرت کے نام پر قتل کرنا، لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور بیٹے کے چکر میں نو نو دس دس بیٹیاں پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ۔

بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کے منہ پر خاموشی کا تالا لگا دیا جاتا ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ مرد کے سامنے خاموشی اور شوہر کا ہر ظلم برداشت کرنا ہے تب جا کر وہ ایک عزت دار اور خاندانی لڑکی کہلائے گی۔ اس سماج میں والدین کی عزت کا معیار یہ ہے کہ بیٹی خاموشی سے جبر سہے اف تک نہ کہے۔

کہیں نہ کہیں ایک عورت بھی اس ظالم سماج کے ساتھ شمار ہوتی ہے جب وہ اپنی بیٹی کو وہی سکھاتی ہے جو بچپن میں اس کو سکھائی گئی تھی۔
یہ سماج عورت کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک ظالم کو مسلط کرنا چاہتا ہے اگر پہلے باپ اور بھائی ہے تو بعد میں شوہر اور بیٹا ہونگے۔

اگر کوئی لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرے تو اسے بد چلن بے غیرت قرار دیں گے اسے کسی بھی نکمے کے ساتھ بیاہ دے کر مزید اس پہ ظلم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی بھاگ کر شادی کرے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں جب کہ مرد سردار و جرگہ کو معقول رقم دے کر پھر آزادی سے گھوم پھر رہا ہوتا ہے، اگر مرد اپنی پسند کا اظہار کرے تو اس کی پسند سر آنکھوں پر اگر وہ بھاگ کر شادی کرے تو اس کو بچانے، حفاظت کرنے، محفوظ جگہ فراہم کرنے کےلیے ماں باپ، خاندان، قبیلہ سب ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، لیکن لڑکی کےلیے موت کے علاوہ کوٸی نجات نہیں، قبر کے علاوہ کوٸی محفوظ جگہ نہیں۔

اگر کسی والدین کے صرف بیٹیاں ہوں تو اسے لاوارث قرار دے کر میراث سے دستبردار کر دیتے ہیں اور بیٹیوں کی موجودگی کے باوجود زندگی بھر ”ایوار“ یعنی لاوارثی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ اولاد کو پالنے میں صرف عورت کو ہی زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اگر اولاد بگڑ جائے تو الزام ماں کو دی جاتی ہے۔ بیٹا اگر غلط راستے پے چل پڑے تو قصور وار ماں ہے۔

ہمارا معاشرہ مرد کو بے عیب یعنی (سونا ) قرار دیتا ہے چاہے وہ بہرا ہو، گونگا ہو، نکما ہو، بدچلن و بد کردار ہو لیکن اس کے لیے خوبصورت سے خوبصورت لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے۔ ہاں اگر کسی لڑکی میں ذرہ برابر عیب ہو تو کسی نکمے کو بھی اس کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔

اس جابرانہ سماج میں عورت ہمیشہ جوتی کی نوک پہ رکھی گئی ہے، اس سے مشورہ تک لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مار پیٹ ظلم سب کچھ سہہ کر بھی وہ اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتی ہے۔ قصوروار ہمیشہ عورت ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں جب اسے رخصت کیا جاتا ہے تو اسے یہی بولا جاتا ہے کہ اب اسی گھر سے ہی تمھارا جنازہ نکلنا چاہیئے۔ اولاد نہ ہونے پر عورت کو ہی بانجھ قرار دیا جاتا ہے بیٹی ہونے پر بھی عورت ہی منحوس کہلاتی ہے۔

اسے تو کھل کے رونے کی آزادی بھی میسر نہیں اس جابرانہ سماج میں ایک غلام مرد اپنی طاقت کا زور اپنے عورت پہ لگاتا ہے۔

لیکن طاقت ور مرد وہ ہوتا ہے جو اپنی عورت کا ہاتھ پکڑ کر اسے اس فرسودہ نظام سے نکالے اور اسے اپنا ہم کوپہ کرے اور اسے اپنے ساتھ قدم ملا کر چلنے پر داد دیے اور سماج کو دکھائے کہ اصل طاقت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عورت کو آزاد کر کے پورے سماج کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک عورت اپنے مرد کے ہم کوپہ ہوتی ہے تو اسے اس کی آزادی کی چابی مل جاتی ہے۔

اگر بلوچستان کی حالات پہ نظر ڈالی جائے تو اس وقت ان پر سب سے ذیادہ ریاستی جبر ہو رہا ہے کسی کا والد کسی کا بھائی کسی کا شوہر تو کسی کا بیٹا لا پتہ ہے۔ ذاکر مجید کی والدہ، راشد حسین کی والدہ، حسنین بلوچ کی والدہ اور ھزاروں ایسی مائیں ہیں جو آج تک اپنے بیٹوں کی راہ تک رہی ہیں۔ سمی مہلب سعیدہ ایسی کٸی بیٹیاں ہیں جو اپنے والد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کررہی ہیں۔ سائرہ پانچ سال سے اپنے دو بھائیوں کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ جب مسنگ پرسنز کی بازیابی کےلیے کوئی احتجاج ہوتا ہے تو اس میں عورتیں زیادہ ہوتی ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر دوسرا مرد لاپتہ ہے۔

عورتیں ایک دوہری خوف میں جی رہی ہوتی ہیں کہ کب ان کے گھر کے مرد لاپتہ کیے جائیں۔ بلوچستان کا ہر دوسرا گھر ایک ماتم خانہ بن چکا ہے۔ عورتیں کی سڑکوں پر تذلیل ہو رہی ہے صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے۔ کبھی ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے تو کبھی ان کو گالیاں دی جاتی ہیں، کبھی کمیشن کے سامنے زلیل کی جاتی ہے تو کبھی انہیں ھراساں کیا جاتا ہے۔ ان کو ہر لحاظ سے ٹارچر کیا جا تا ہے۔ کبھی فیک انکاؤنٹر میں لاپتہ افراد کو مارا جاتا ہے تو کبھی مسخ شدہ لاش پینھکا جاتا ہے۔

اب تو حالات نے نیا رخ موڑ لیا ہے اب خواتین کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ نگرہ اور نازینک دو معصوم بچیاں جو کہ یہ وقت ان کے لاڈ و پیار کرنے کھیل و مستی کے دن ہے لیکن وہ اپنی والدہ ماھل بلوچ کے لیے جدوجہد میں لگی ہوٸی ہیں۔ ان معصوم بچیوں نے اپنی والدہ کو انصاف دلانے کے لیے شال کی سرد راتوں کو تکلیف و اذیت میں سڑک پر گزارے کہ شاید ہی کسی کو ترس آئے اور وہ ان کو ان کی ممتا لوٹا دیں۔ نگرہ اور نازینک کا واحد سہارا ان کی ماں ماہل بلوچ ہے جو کہ اس وقت ریاست کی حراست میں ہے۔

آٹھ مارچ کو ہونے والا ”بلوچ عورت مارچ“ بلوچ عورت پر ڈھاٸے جانے ریاستی اور سماجی جبر کے خلاف ہے۔ بلوچ عورت کو ریاستی اداروں کے جبر سے نجات چاہیے، اسے ھراسانی، تذلیل، اپنوں کی گمشدگی سے آزادی چاہیے، اسے جرگہ، سردار، قباٸلی روایات کی زنجیروں سے آزادی چاہیے، بلوچ عورت سماج میں انصاف اور برابری چاہیے، بلوچ عورت کو ریاستی اور سماجی جبر سے نجات چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.