وڈھ یونیورسٹی کیمپس اور تعلیم دشمن ٹراٸیکا

تحریر: فرید مینگل

میرا وطن چھلنی ہے، زخموں سے چور چور ہے، لہو لہان ہے، جی میرا وطن محکوم بلوچستان ہے۔ جہاں آٸے روز وطن زادے جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنتے ہیں، جہاں آٸے روز عام عوام سرکار، سردار و زردار کی ظلم و زوراکی اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں، یہ وہی بلوچستان ہے جہاں تقریری شعبدے باز وطن بیچ ڈالتے ہیں، وزارتیں،ٹھیکے، مراعات لیتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔

بلوچستان میں اعلٰی تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں، 25 لاکھ سے زاٸد بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے، شرح غربت 80 فیصد سے زاٸد ہے، سیکڑوں اسکول بند پڑے ہیں یا پھر مقامی سردار و میر معتبر اور جاگیردار کے بیٹھک و گودام بن چکے ہیں۔ کوٸی پوچھنے والا نہیں، کوٸی والی و وارث نہیں۔ ارے جب وطن محکوم ہو تو پھر کون پوچھتا ہے سب لوٹتے ہیں، سب پیٹ پوجا کرتے ہیں۔

آج سے پانچ سال قبل وڈھ میں لوامز ( لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین ساٸنسز) کا ایک سب کیمپس وڈھ میں کھولا گیا تھا۔ اختر جان مینگل نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے اس درسگاہ کےلیے زمین بھی فراہم کر دی تھی۔

مگر وڈھ میں یونیورسٹی بننے کا خواب اب تک خواب ہی ہے، جب کہ اس کیمپس کے ساتھ اور اس کے بعد بننے والے کیمپسز اب باقاعدہ طور پر یونیورسٹی کا درجہ پا چکے ہیں۔ پنجگور کیمپس، گوادر کیمپس، ڈیرہ مراد جمالی کیمپس حتٰی کہ میر چاکر خان یونیورسٹی بھی بن چکا ہے مگر وڈھ کے قسمت میں ابھی تک تاریکی ہی تاریکی ہے۔

جب سے لوامز وڈھ کیمپس کا اعلان ہوا ہے تب سے لے کر اب تک ایک سفارشی و کام چور اور اقربا پرور انتظامیہ اس کیمپس پر قبضہ کر بیٹھا ہے۔ جہاں فیکلٹی پوسٹس سے لے کر ”کامیاب جوان پروگرام“ تک سب پر اسی ٹراٸیکا کا قبضہ ہے اور سب آپس میں بندر بانٹ کر رہے ہیں، اس اثنا میں اگر تعلیمی ادارہ بھی تباہ و برباد ہو جاٸے تو ان کےلیے کوٸی بات نہیں۔

واٸس چانسلر، کیمپس ڈاٸریکٹر، اسسٹنٹ ڈاٸریکٹر سمیت ایک پوری کی پوری لابی اس کیمپس کی بدحالی و بربادی میں کوٸی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ ڈاٸریکٹر اور اسسٹنٹ ڈاٸریکٹر ”کامیاب جوان“ پروگرام کے ذریعے اپنے احباب کے ساتھ دو دو تنخواہ بٹورتے رہے، ایک گھر میں چار چار تنخواہوں کی صورت میں لکشمی جاتا رہا مگر یونیورسٹی کی حالتِ زار نہ بدل سکی۔

وڈھ یونیورسٹی کیمپس آج بھی ایک اسکول میں قید ہے جب کہ اس کے بعد بننے والے کیمپسز کی بلڈنگز تک مکمل ہو چکے ہیں، ڈیرہ مراد جمالی کیمپس کا آغاز وڈھ کیمپس کے ساتھ ہوا تھا آج اس کے تعمیرات بمع ھاسٹلز تک مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ یہاں کروڑوں روپے ٹیچرز ھاسٹل کی مد میں برباد کیے جاچکے ہیں یا پھر کچھ حصہ ٹیکنیکالٹی ھربے کے تحت ھڑپ کیے جا چکے ہیں۔

پچھلے پانچ سال سے فیکلٹی کا اکثر حصہ کنٹریکٹ زدہ ہے، فیکلٹی میں سفارشی پوسٹس اتنے ہیں کہ ہر کسی نے اقربا پروری کی دوکان کھول رکھی ہے۔ فیکلٹی اور لوٸر اسٹاف کو ابھی تک انکریمنٹس نہیں مل رہے، لوٸر اسٹاف مزدور کم انتظامیہ کے غلام زیادہ بنا دیے جا چکے ہیں، کسی کو اس کے کام اور ٹاٸمنگ تک کا نہیں معلوم، وہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ جب کہ طلبہ کو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں، فیمیل ھاسٹل کا تو نام تک نہیں ابھی تک۔

بے حسی اور مَن مرضی کی انتہا دیکھیے کہ وڈھ کیمپس کے ٹیچرز ھاسٹل کی تعمیرات کا آغاز بھی بادشاہ سلامت وی سی نے 200 کلومیٹر دور اوتھل میں کر دیا تھا، وہ تو بھلا ہو اختر جان مینگل کا کہ انہوں بر وقت غیر قانونی تعمیرات رکوا دیں ورنہ بادشاہ سلامت یہ بھی بڑی ھٹ دھرمی سے کرتے۔ مگر یونیورسٹی بلڈنگ کی طرح آج تک ان ھاسٹلز کی تعمیرات کا آغاز وڈھ میں نہیں ہو سکا اور ٹیچرز کو پراٸیویٹ ھاسٹل میں رہاٸش دے کر سالانہ لاکھوں روپے اڑاٸے جا رہے ہیں۔ اور تو اور جناب ڈاٸریکٹر کی نظریں تعمیراتی کام کے ٹھیکوں پر بھی لگے ہوٸے ہیں جب کہ ابھی تک کام کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔

ان تمام کرتوتوں اور اداروں کی تباہی کے باوجود اقربا پروری جاری ہے، اور بادشاہ سلامت وی سی جنرل باجوہ بنے ایک اور ایکسٹینشن کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

ایسے میں وڈھ کے عوام کو اپنے ادارے کی بحالی اور بچاٶ کےلیے آواز اٹھانی چاہیے، اس نا اہل و اقربا پرور انتظامیہ کا احتساب کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کی مستقبل کو بچانے کےلیے آواز اٹھا کر احتجاج تک کرنی چاہیے کہ یہ ادارہ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے، اگر اس کو ان نا اہلوں نے اپنی نا اہلی اور کرپشن کی نظر کر کے ڈبو دیا تو پھر دوبارہ ایسا ادارہ پانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاٸے گا۔

سردار اخترجان مینگل کو بھی وڈھ یونیورسٹی کیمپس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اب تو گورنر شپ بھی ان کے پارٹی کی ہے، اب کم از کم اس کیمپس کی تباہی کا ھنگامی بنیادوں پر نوٹس لیا جانا چاہیے تباہی کے ذمہ داران کے خلاف کاررواٸی کر کے اس کو باقاعدہ طورپر یونیورسٹی بنا کر قومی رہنما سردار عطااللہ خان مینگل کے نام کر دینا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.