بی ایس او اوتھل زون کی جانب سے ایک روزہ ریجنل اسکول کا انعقاد کیا گیا جس میں بین الاقوامی تناظر، تنظیم، قومی سوال، پولیٹیکل اکانومی اور جدلیاتی مادیت زیر بحث رہے۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے ریجنل اسکول منعقد کیا گیا تھا جس میں مہمان خصوصی مرکزی چیئرمین سنگت چنگیز بلوچ، اعزازی مہمان مرکزی کمیٹی کے رکن سنگت حسیب بلوچ، سجاد بلوچ شامل تھے۔

پروگرام کا آغاز شہداء بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اور راجی سوت، انقلابی شاعری سے سے کیا گیا۔

ریجنل اسکول میں ساتھیوں نے مختلف عنوانات پر بحث مباحثے کیے جن میں ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیم، پولیٹیکل اکانومی، قومی سوال اور جدلیاتی مادیت شامل تھے۔

پہلا سیشن “ملکی و بین الاقوامی تناظر” پر تھا، جس کی صدارت سنگت بچکند بلوچ نے کی جب کہ لیڈ آف سجاد بلوچ نے دی۔

عالمی و علاقائی تناظر پر بات رکھتے ہوئے سجاد بلوچ نے کہا کہ یہ سرمایہ دارانہ عہد سامراجی طاقتوں کی پراسرار بربریت کا آخری عہد آج دنیا جہاں میں محکوم اقوام و طبقات کی جانب سے ظلم و بربریت، ناانصافی و نابرابری اور قومی بقاء و سلامتی کےلئے مختلف قسم کے تحاریک ابھر کر سامنے آرہے ہیں، روس اور یوکرائن کی جنگ، ایران میں ژینا مہسا امینی کی پر تشدد موت، سری لنکا کی معاشی دیوالیہ پن، امریکہ میں بلیک لاٸیوز میٹر، ہندوستان میں نکسلائیٹ موومنٹ اور بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف دہائیوں سے جاری جدو جہد اس بات کی واضح مثال ہے کہ یہ نظام اپنی بدترین دور سے گزر رہا ہے اس کی خار دار دیواروں میں اب دراڑیں پیدا ہوئے اور اس گرتی ہوئی دیوار کو محض ایک جاندار دھکے کی ضرورت ہے۔

دوسرے سیشن کا آغاز تنظیم کے عنوان سے تھا جس کی صدارت کامریڈ رخصار بلوچ نے کی اور لیڈ آف سنگت سید بلوچ نے دی۔

تنظیم پر بات رکھتے ہوئے سید بلوچ نے کہا کہ محکوم اقوام کی بقا کی جنگ میں تنظیم سے ہی ایک مضبوط انقلابی جڑت سامنے آتی جس سے اس پورے فرسودہ سماجی ڈھانچے کی از سر نو تشکیل ممکن ہے۔ مگر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ محض افراد کا ایک جڑت تو کبھی بھی انفرادی و اجتماعی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا جب تک اس جڑت کا نظریہ، حکمت عملی و طریقہ کار واضح نہ ہو۔

تیسرا سیشن “پولیٹیکل اکانومی” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت سنگت کریم بخش نے کی اور لیڈ آف چیئرمین چنگیز بلوچ نے دی۔

پولیٹیکل اکانومی پر بات رکھتے ہوئے چیئرمین نے کہا کہ دنیاوی ترقی کی مادی وجوہات سے ظاہر ہے کہ معاشی ترقی سے ہی سماج و سماجی ادارون کی بہتری ممکن ہے ۔ اور دنیا کے قدیم اشتراکی سماجی دور سے لیکر اج کے جدید سامراجی نظام تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں اگر ان کی مادی وجوہات کو کنگھالا جائے تو یہی امر لازم ٹھہرے گا کہ سماجی بہتری!! اور سماجی بدلاؤ بغیر کسی ٹھوس معاشی بدلاؤ کے ممکن نہیں ۔ اور اس عظیم بدلاؤ کے لئے ضروری ہے کہ ملکی معیشت کو فرسودہ جاگیرداری اورسرمایہ داری نظام سے چھٹکارا دلایا جائے ۔

تیسرے سیشن کا عنوان قومی سوال سے تھا، جس کی صدارت سنگت زکریا شاہوانی نے کی اور لیڈ آف ارشاد بلوچ نے دی۔

قومی سوال کے متعلق ارشاد بلوچ نے کہا کہ قومی پیداواری قوتوں پر سامراجی طاقتوں کا تسلط، قومی ساحل و وسائل پر بیرونی و علاقائی حکمران طبقات کی لوٹ کھسوٹ سے محکوم قوموں کی بنیادی شناخت پہ قدغن اور کسان و مزدور کی اخری پسینہ ٹپکنے اور اس کھلاڑی کی کھال اترنے تک اسے ازیت میں رکھنا اور عین اسی وقت قومی پیداواری طاقتوں کو بیرونی و اندرونی حکمرانوں سے آزاد کرانا اور قومی خودمختاری کو ممکن بنانے کے لیے ایک ایسی موضوعی عنصر یعنی انقلابی تنظیم/پارٹی کا جنم لینا جس کی آئین و منشور میں عام عوام اور سماجی بہتری کی اصلاحیں موجود ہوں جو یہ واضح کرتی ہو کہ سامراجی زری نظام کی بھاگ دوڑ کو برقرار رکھنے والے طاقتیں اب اس سے آگے ایک انچ بھی نہیں بڑھ سکتے تب ایک محکوم قوم اسی تنظیم کے چھاتر چایہ تلے اپنی قومی بقاء و قومی پیداواری طاقتوں کو آزاد کرانے کے لیے جہد کرسکتا ہے۔

پانچواں سیشن”جدلیاتی مادیت” کے عنوان سے تھا، جس کی صدارت سنگت سید بلوچ نے کی، اور لیڈ آف سنگت حسیب بلوچ نے دی۔
جدلیاتی مادیت کے متعلق حسیب بلوچ نے سیاسی جدوجہد اور محکوم عوام کے لیے فلسفہ کی اہمیت پر بات رکھا اور جدلیاتی فلسفہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً اس استحصالی نظام کے متبادل میں سماجی اور فطری حقیقتوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے جدلیاتی مادیت مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد میں ایک سائنسی عینک کی حیثیت رکھتی ہے ۔
سماج کے بنیادی ساٸنس یعنی جدلیاتی مادیت کو سمجھے بغیر قبضہ گیر قوتوں اور ان کی اجارہ داری کو سمجھنا ناممکن ہے۔ ساتھیوں نے کہا کہ مجموعی طورپر سماج اپنے تضادات کے تحت ہی آگے بڑھتی ہے اور ہر تضاد قدیم سے جنم لیتا ہے اور خود قدیم بن کر ایک نیا تضاد جنم دے کر اپنے خاتمے کا سبب خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ہر قدیم کو زوال ہے اور ہر نٸے کا مقدر پرانا ہونے میں ہے۔ موجودہ مسلط استحصالی سیاسی نظام ہو یا پھر قبضہ گیر قوتیں تمام تر کی فنا ان کے اپنے ہی پیدا کردہ تضادات میں ہے۔ ایک منظم انقلابی تنظیم کا کام ہی یہ ہے کہ ان تضادات کی درست نشاندھی کرے اور سسٹم کو اس کے زوال کی جانب لے جانے کےلیے انہیں تیز سے تیز تر کرکے عوامی رہنماٸی اور فتح کا سبب بنے۔

بعد ازاں مختلف سوالات و مباحث کے بعد ریجنل اسکول کا اختتام قومی محکومی کے خاتمے اور انقلابی عزم کے ساتھ کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.