کتاب : سوشلزم کیا ہے

مصنف : عمران کامیانہ
ریوو : جلال جورکؔ

عمران کامیانہ بزات خود کٸی سالوں سے مارکسزم و سوشلسٹ انقلاب کےلیے جدوجہد کرنے والوں میں سے ہیں انہوں نے ڈاکٹر لال خان اور دوسرے ساتھیوں سمیت ایک کتاب “سوشلزم کیا ہے ” کے نام سے ترتیب دی ہے جس میں وہ سوشلزم و اس سے متعلق بنیادی اصطلاحات کو بڑے خوبصوت انداز میں واضح کرتے ہیں ۔ یہ کتاب دراصل ان تمام طلباء کے لئے بڑی اہمیت کا حامل جو سوشلزم و مارکسزم جیسے نظریات کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ اس کتاب کے دیباچہ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے دور میں لکھی گئی ہے جب پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام زوال پزیری کا شکار ہونے جارہی ہے اور اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح ابتدائی زمانے میں فرسودہ جاگیرداری نظام بھی زوال کا شکار ہوا اور اس کی جگہ سرمایہ داری نظام نے لی اب وہ وقت دور نہیں کہ جب عالمی سطح پر سرمایہ داری کے اس نظام کی جگہ سچھی سوشلزم لے گی۔

وہ مزید یہ واضح کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کے پالیسی سازوں نے تاریخ کے خاتمے اور نیو ورلڈ آرڈر کے جو خواب دیکھے اور عوام کو دکھائے تھے ان کو ٹوٹنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا ہے۔ آج سرمایہ داری کی متروکیت اور ناکامی پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہے۔ تازہ سروے کے مطابق امریکہ جیسے ممالک میں نو جوانوں کی نصف تعداد کے نزدیک سوشلزم ایک بہتر نظام ہے اور وہ اسے سرمایہ داری پر ترجیح دیں گے۔ یورپ میں بھی کئی دہائیوں بعد بائیں بازو کے رجحانات کا ایک عروج دیکھنے کو ملتا ہے جس کی واضح مثال لیبر پارٹی میں جیرمی کاربن جیسے نماٸندوں کا ابھر کر سامنے آنا ہے۔ اعتدال پسندی اور اسٹیٹس کو کی سیاست مسترد ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

مصنف اس کتاب میں واضع انداز میں سوشلزم سے جُڑی بنیادی اصلاحات بیان کرتے ہوئے سماج ہی سے شروع کرتا ہے کہ جس کے گرد ہی افراد کی منظم یا غیر منظم جڑت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے سماج ایک ایسا بنیادی ادارہ ہے کہ جس میں ایک فرد کا دوسرے کے اور دوسرے کا تیسرے کے ساتھ بنیادی طور ہر جو پیداواری یا سماجی تعلق ہے اس سے ایک بات تو ناگزیر ہے کہ سماج میں تمام تر افراد ایک دوسرے کے بغیر رہنا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس عمل کو دہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ “انسان ہی کو سماجی جانور ہونے کا درجہ دیاگیا ہے اور ساتھ ہی اس سماج سے جُڑی ان طبقات کا بھی بخوبی زکر اس کتاب میں شامل ہے جن کے بارے میں مارکس یہ کہتا ہے کہ “تمام تر انسانی تاریخ طبقاتی جہدو جہد کی تاریخ ہے “

وہ بیان کرتے ہے کہ سوشلزم از خود ایک اکنامیکل نظریہ ہے جس کے لئے لازم ہے کہ ان اصلاحات کو سمجھا جائے جو اس نظریہ سے مطابقت رکھتے ہیں اور وہ اس اثنا میں سرمایہ ، سرمایہ کے ماخز اس کے حصول کے لئے جو زرائع ہوتے ہیں ان کو بھی واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ تاریخی طور پر سماجی ڈھانچے کی ترقی یافتہ ارتقائی سفر اس وقت شروع ہوتی ہے جب اس میں ایسا نظام رائج ہو اور اس کے ساتھ ہی طبقاتی تفریق سے بالا ہوکر تمام تر وسائل کی یکساں تقسیم بھی موجود ہو ۔ بغیر سوشلسٹ نظریات کے آج کی دور میں کسی بھی سماج میں طبقاتی تفریق کا ختم ہونا اور ترقی کی سفر پر گامزن ہونا بھی ناممکن عمل ہے ۔

ایک طبقاتی سماج میں طبقاتی تضادات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ کبھی سطح کے نیچے پکتے رہتے ہیں اور بظاہر نظر نہیں آتے تو کبھی بھڑک کر طبقاتی تصادم اور جنگ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ مزید برآں طبقاتی جدوجہد کئی شکلیں اختیار کر سکتی ہے مثلاً معاشی، سیاسی، نظریاتی۔ تاہم یہ تمام شکلیں ایک دوسرے سے متصل اور مربوط ہوتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں لینن اس نظریہ کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ سماج کے درمیان ایک (سماج) کی دوسرے میں انقلابی تبدیلی کا مرحلہ موجود ہوتا ہے۔ اس کی مطابقت سے ایک عبوری سیاسی مرحلہ بھی موجود ہوتا ہے جس میں ریاست پرولتاریہ کی آمریت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی ۔ “کمیونزم کے پہلے مرحلے میں دولت کا غیر منصفانہ فرق موجود رہے گا لیکن انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ناممکن بن جائے گا کیونکہ ذرائع پیداوار پر قبضہ کر کے انہیں ملکیت بنانا ناممکن ہو گا۔ کمیونسٹ سماج شروع میں اس حد تک رہنے پر مجبور ہے کہ ذرائع پیداوار کے نجی ملکیت بن جانے کی جو نا انصافی ہے صرف اسی کو ختم کرے، یہ اس کے بس سے باہر ہے کہ فوراً ہی دوسری نا انصافی کو بھی مٹادے جو استعمال کی چیزوں کی تقسیم میں پائی جاتی ہے جو انجام دی ہوئی خدمت یا محنت کے مطابق ملتی ہیں۔

الغرض یہ کتاب سوشلسٹ اصطلاحات کے اوپر ایک تربیتی سیریز بھی ہے جس کے توسط سے کوئی سوشلزم جیسے انقلابی نظریے کو سمجھنے کی اہل ہوسکتا ہے ۔ آج کے دور میں جہاں ہرطرف سرمایہ کے حصول کے جنگ نے عالمی سطح کے سپر پاورز کو پریشان کیا ہے وہیں دوسری طرف سوشلسٹ نظریات کو سمجھنا اور ان کی پرچار ہی اس سماج کو اور عالمی سطح کی گہماگہمی کو سرمایہ دارنہ نظام کے اس غلاظت سے چھٹکارا دلا سکتاہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.