بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون شہید حمید یونٹ کی طرف سے 31 مئی بروز بدھ کو جامعہ بلوچستان میں اسٹڈی سرکل بعنوان “۔سماج اور شعور کا جدلیاتی رشتہ” منعقد کیا گیا۔

رپورٹ: یونٹ سیکریٹری

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون شہید حمید یونٹ کی جانب سے 31 مئی بروز بدھ کو جامعہ بلوچستان میں اسٹڈی سرکل بعنوان ”سماج اور شعور کا جدلیاتی رشتہ“ منعقد کیا گیا جس میں لیڈ آف شہید حمید یونٹ کے یونٹ سیکریٹری عثمان بلوچ نے دی جب کہ کارروائی ڈپٹی یونٹ سکریٹری یونس بلوچ  نے چلائی۔ جس میں مہمان خاص مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ تھے۔

سرکل کے باقاعدہ آغاز میں یونس بلوچ نے تعارفی بحث آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سماج کو عام طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” انسانوں کی ایسی جڑت جس میں افراد، محنت اور پیداوار کی تقسیم و تبادلے کے رشتے میں جڑے ہوں”۔

سنگت عثمان بلوچ نے لیڈ آف دیتے ہوئے کہا کہ آج کے اس جدید دور میں سماج کو فقط ایک روایتی تعریف تک محدود رکھنا نادانی ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف فن اپنی بنیادی اہمیت کھو رہے ہیں جس کو نام نہاد دانشور سماجی تہذیب کا نام بھی دیتے ہیں۔ حقیقت میں جس کی بنا پر مختلف قوموں کی زبانوں کو مسخ کردیا تو۴ ساتھ ہی کئی حقیقی تہذیبیں بھی دب چکی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ گراٶنڈ میں موجود تنظیمیں اپنی نظریاتی لائن یعنی اپنا بنیادی کردار کھو چکی ہیں تو کہیں پہ ان کی ریڈیکل لائن اس قدر سخت ہے کہ جس کی وجہ سے وہ عام عوام سے بلکل کٹ چکی ہیں، جس کی وجہ سے آج عام عوام سیاست سے بیگانہ ہیں اور سماج میں مسلسل مایوسی پروان چڑھ رہی ہے۔

ساتھ ہی کامریڈ نے گامسن تھیوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک تنظیم میں JUSTICE, AGENCY , IDENTITY, کا ہونا لازمی ہے۔ جن کے توسط سے سیاسی کیڈر مضبوط تنظیم سازی کرتے ہوئے تنظیمی عمل کو واضح کرسکتا ہے۔ آج کے بیہودہ سیاسی کلچر میں سیاسی نظریات اور انقلابی ثقافت کی کمی کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوتا جارہا ہے، جسے پُر کرنا ہر بلوچ نوجوان کا فرض ہے۔

سنگت نے مزید کہا کہ آج سیاسی بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایک سیاسی کارکن سماجی ارتقائی قوانین کو بڑی حد تک جھٹلا کر گروہی معاملات تک محدود ہوچکا ہے۔ آج سیاسی معاشیات کے نظریات کے خلا کو نام نہاد دانشوروں نے اپنے فروعی خیالات سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاستدانوں کے سماج سے کٹ جانے کی وجہ سے سماجی و ثقافتی سطح پر بھی ایک بحران کا سامنا ہے۔ ساتھیوں نے کہا کہ یہ ایک ادارے یا گروہ کا بحران نہیں بلکہ ایک نئی سماجی نفسیات کا جنم ہے۔

مزید سماج میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کی اضطرابی کیفیت پر سنگت عثمان بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس عہد میں سماج کو حقیقی معنوں میں بیان نہیں کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سماجی مسائل اپنے اندر ہی دب جاتے ہیں دانشور و سیاسی کارکن ذاتی مفادات جیسی خرافتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ سنگت نے اینٹی پوڈ ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “دانشور طبقہ ریاست کے بازو یا اِلیٹ کلاس کے پہیے کا کام کرتا ہے” جس نے ہمیشہ محنت کش طبقے کے استحصال میں بڑھ کر برسراقتدار طبقات کی خدمت کی ہے۔

ساتھیوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نظریاتی استحکام پہ مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ بی ایس او ہمیشہ پختہ و عظیم سائنسی نظریات کی بنیاد پر عوام سے جڑ کر اپنی جدوجہد کو ہر فورم پر مضبوط و مربوط بنائے رکھی ہے اور مذید توانائی کے ساتھ اپنے کام کو آگے بڑھائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.