سرمایہ داری سے کمیونزم تک کا عبوری مرحلہ

تحریر: سجاد بلوچ

انسانی سماج کی تاریخ آلات پیدوار کی ترقی اور طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ ہر عہد یا ہر نظام کے پیداواری رشتے اس نظام کے آلاتِ پیداوار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر آلاتِ پیداوار میں ذرا سی بھی تبدیلی پیدا ہوگئی تو اس کے نتیجے میں پیداواری رشتے بھی ہِل جائیں گے۔ حاکم اور محکوم سوالیہ نشان بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ تب ان کے درمیان ایک دوسرے کو تسخیر کرنے اور ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً ان میں سے ایک فنا ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ پر دوسرا آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اور اسی “نفی کی نفی” کے قانون کے تحت انسانی سماج ترقی و ترویج کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔

یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک انسانی سماج کے پیداواری رشتے اُس سماج کے آلات پیدوار سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اور جب پیداواری رشتوں اور آلاتِ پیداوار کے درمیان مطابقت پیدا ہوگئی تو یہ تمام تر جنگ و جدل، قتل و غارت گری، لوٹ مار کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اکثر بورژوا ناسمجھ دانشور اسی نکتے کو اِدھر اُدھر کھینچ کر اس پر ملائی مکھن مار کر اور ایک بے حد شریفانہ انداز میں کمیونسٹ منصفانہ سماجی نظام کے خلاف عام محنت کش عوام کو گمراہ کرنے کےلیے اس نکتے کو یوں پیش کرتے ہیں “کہ اگر کسی سماج میں (جہاں پیداواری رشتے، آلات پیداوار سے مطابقت رکھتے ہوں) انسانوں کے درمیان برابری واقع ہوگئی تو وہاں ترقی و ترویج کا سفر یک دم ختم ہوجائے گا اور انسانی سماج بتدریج زوال کی جانب بڑھنا شروع ہوجاٸے گا۔ لہٰذا کمیونسٹ سماجی نظام موجودہ عہد میں ورک نہیں کرسکتا.

اس کے برعکس سماجی سائنسدان (مارکسی دانشور) ان کے اس دعوے کو باقاعدگی سے رد کرتے ہیں۔ ان نالائق و ان پڑھ بودوں کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ کوئی سماجی نظام اس وقت تک کروٹ بدلنے کے قابل نہیں ہوگا جب تک نئے آلاتِ پیداوار ایجاد نہ کیے جائیں۔ اور اس وقت تک انسانی سماج میں پیداواری رشتے بھی ایک بہتر اور پائیدار انداز میں موجود رہتے ہیں اور سماجی ترقی و پیشرفت بھی باقاعدگی سے جاری رہے گی کبھی رکے گا نہیں۔ نئے آلات پیداوار کی کھوج بھی جاری رہے گی، سماج کو بدلنے کےلیےکامریڈ لینن کہتے تھے کہ “اگر دنیا کو سمجھنے اور بدلنے کا مارکسزم سے بہتر کوئی نظریہ ہمیں میسر آتا ہے تو ہم مارکسزم کو ترک کرنے میں ایک لمحے کےلیے بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔”

اب موجودہ سرمایہ دارانہ سماجی نظام میں آلات پیداوار بے حد ترقی کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس موجودہ پیداواری رشتوں کو زنگ لگ گیا ہے اور وہ بتدریج ناکارہ و ختم ہورہے ہیں۔ تبھی تو آج مزدور (محکوم) اور سرمایہ دار (حاکم) دست و گریباں ہیں۔ آج ہر معاشرہ ایک جنگی اکھاڑے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس جنگی ماحول سے بچ کر صرف وہی لوگ سرخرو ہوں گے جو سالوں سے ارتقائی مراحل کو دوام بخشتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے ہیں۔ سماجی نظاموں کے ارتقا نے جہاں ایک طرف دنیا میں نئے خیالات و نظریات کو جنم دیا ہے جن کی بدولت قدیم سماج جدیدیت اور ترقی یافتہ شکل میں تبدیل ہو گیا ہے تو دوسری جانب دنیا میں موجود فرسودہ خیالات و افکار نے اس سماجی انقلاب کو جامد و ساکن بنانے کی ہر ممکن کوششیں آزمائی ہیں مگر ان دو متضاد نظریات (ارتقائی و جمودی) کے درمیان تضادات میں سے جیت ہمیشہ ارتقائی خیالات کی رہی ہے اور جمودی سوچ رکھنے والی قوتوں کو پسپائی کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہوا ہے۔

موجودہ سرمایہ دارانہ سماجی نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں معاشرے کے تمام تر پیداواری ذرائع پر چند مُٹھی بھر سرداروں و سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اور یہ مٹھی بھر سرمایہ دار اپنی پیداوار کو مزید ترقی دینے کےلیے مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج مزدور طبقہ اپنی نجات کےلیے اس تمام تر ڈھانچے کو مسخ کر کے ایک متبادل و منصوبہ بند معاشی نظام کی جدوجہد کر رہا ہے۔ وہ متبادل سماج “سوشلزم” ہے۔ سوشلزم وہ نظام ہے جہاں سماج کے تمام تر ذرائع پیداوار پر سماج کے ورکنگ کلاس یعنی محنت کشوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ اس سماج میں کوئی کسی سے برتر و کم تر نہیں ہوتا تمام افراد کی سماجی حیثیت ایک سی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ورکنگ کلاس سوسائٹی کے کس طبقے کو کہا جاتا ہے؟ اور کیوں کر سوسائٹی کے باقی دیگر طبقات کے برعکس محض ورکنگ کلاس ہی سوسائٹی کے تمام تر ذرائع پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے؟

موجودہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے اندر ہر سماج میں لوگوں کے درمیان سماجی درجہ بندیاں موجود رہتی ہیں۔ یعنی ایک سوسائٹی میں معاشی طور پر کوئی بہت زیادہ امیر ہوتا ہے جیسے کہ سماج کے حکمران طبقات کے لوگ(الیٹ کلاس) تو دوسرے معاشی لحاظ سے بہت زیادہ غریب ہوتے ہیں جیسے کہ سماج کے مزدور اور لوئر کسان۔ اور تیسری جانب سوسائٹی میں ایک ایسی کلاس بھی موجود رہتی ہے جو نہ زیادہ امیر ہوتا ہے اور نہ ہی زیادہ غریب اور اس طبقے کے لوگوں کو بورژوازی کہا جاتا ہے۔ اور ہمیشہ بورژوا کلاس کے لوگوں کا جھکاؤ حکمران طبقات کی جانب ہوتا ہے۔ یہ طبقہ کسی بھی صورت سوسائٹی کے لوئر کلاس یعنی پرولتاریہ کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتا۔ اور مسلسل اسی کوشش میں رہتا ہے کہ کب حکمران طبقات (خواہ وہ بیرونی ہوں یا اندرونی) کو ان کی سماجی حیثیت سے گرا کر خود کو ان کی کرسی پر بٹھایا جائے۔ اور سماج کے تمام تر ذرائع پیداوار پر اپنا ذاتی تسلط جمایا جائے۔

نوآبادیاتی نظام میں بھی بورژوا طبقہ درآمدی آمر کی لوٹ مار کو ختم کرنے اور ملکی یا قومی منڈی پر اپنی گہری نظر رکھتا ہے۔ اور منڈی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پہلا اور ضروری عمل یہ ہوتا ہے کہ دری آمر کو کسی بھی صورت اپنی قومی منڈی سے بے دخل کردینا ہے۔ اس مقصد اور صرف اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر وہ تحریکیں تشکیل دے کر مکمل عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ وہ کچھ اس طرح کہ جب محکوم قوم کا بورژوازی غالب و فاتح قوم کے حکمرانوں کے خلاف قومی آزادی کا جھنڈا ہاتھ میں لیتے ہوئے میدان میں حاضر ہوجاتا ہے تو ساتھ ہی اپنے قوم کے گرے پسے ہوئے طبقات کو بھی غالب قوم کی بربریت و تباہکاریوں کے خلاف جدوجہد پہ آمادہ کرلیتا ہے۔ بورژوا خود کو اپنے قوم کے محکوموں کےلیے نجات کا واحد ذریعہ بنا کر یک دم تحریک کے پہلی صفوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکوم قوم کا بورژوازی غالب قوم کے حکمرانوں سے نجات کےلیے تحریک کی پہلی صفحوں میں کیوں موجود رہتا ہے؟

اس کو سمجھنا انتہائی آسان ہے۔ وہ اس لیے کہ محکوم قوم کے بورژوازی کے بھی وہی مقاصد ہوتے ہیں جو غالب قوم کے حکمرانوں کے ہیں۔ یعنی منڈیوں پر قبضہ جمانا اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ بٹورنا۔ اب جب کہ محکوم قوم کا بورژوازی اتنا طاقتور نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری قوم کی منڈی پر اپنا تسلط جمائے اور اس قوم کی جمع پونجی سے اپنی پیداوار کو بڑھائے۔ اسی لیے اس کی پہلی نظر اپنی قومی منڈی پر پڑھتی ہے۔ اور اسی لیے وہ غالب قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کی جدوجہد میں تحریک میں شامل ہوتا ہے۔ بقولِ کامریڈ اسٹالن: منڈی ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے بورژوازی قومیت کا سبق پڑھتا ہے۔
اب ایسے ماحول میں محکوم قوم کے گرے ہوئے طبقات اپنا نابینا پن ترک کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے قومی بورژوازی کے مفادات و مقاصد کو سمجھتے ہوئے ان کی صفوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنی ایک علیحدہ تحریک تشکیل دیں تاکہ غالب قوم کے حکمرانوں کی بے دخلی کے بعد قومی منڈی کو اپنی یعنی مجموعی قومی تحویل میں لیا جائے۔

اگر کسی سوسائٹی کی مکمل معیشت پر چند مُٹھی بھر سرداروں و سرمایہ داروں کا قبضہ ہوجائے تو یہ ظاہر سی بات ہے کہ سماج کی باقی ماندہ مجموعی اکثریت معاشی طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اور کیپٹلسٹ یعنی موجودہ سرمایہ دارانہ سماج میں یہی رواج ہے کہ سماج کی تمام تر معیشت محض چند یعنی دس فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز رہتا ہے۔ سوسائٹی کے باقی دیگر نوّے فیصد لوگ خواری و تنزلی کا شکار رہتے ہیں۔
تو اسی وجہ سے سوسائٹی کے تمام تر ذرائع پیداوار پر ورکنگ کلاس کا قبضہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ محنت کشوں کی سماجی ضروریات عالم انسانیت کی ضروریات ہیں اور محنت کش طبقے کو ظلم و جبر سے نجات عالم انسانیت کی نجات ہے۔ سوشلسٹ نظام ایک ایسا سماجی نظام ہے جہاں سوسائٹی کی تمام تر معیشت پر محنت کش طبقے کا قبضہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام میں کوئی بھی ضرورت مند اور محتاج نہیں رہتا. تمام انسان برابری کی زندگی جیتے ہیں۔

کیا سوشلسٹ سماج اور کمیونسٹ سماج میں فرق ہے؟

ہاں، البتہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ سماجی نظاموں کے درمیان کچھ بنیادی اور معمولی فرق پائے جاتے ہیں۔ سوشلزم، سرمایہ دارانہ نظام سے کمیونزم کی جانب بڑھنے کا ایک عبوری دور ہے۔ جسے کمیونزم کا پہلا مرحلہ بھی کہا جاتا ہے۔ سوشلزم اور کمیونزم کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا کہ جس کی بنیاد پر ہم ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے دیکھ لیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ سوشلزم میں کچھ ایسی چیزیں یا کچھ ایسے ادارے موجود ہوتے ہیں جو سوشلسٹ سماج کو مکمل طور پر انقلابی کروٹ لینے یعنی کمیونزم کی جانب بڑھنے کےلیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔

اس کے برعکس سوشلزم کے اگلے مرحلے میں یعنی کمیونزم میں ان تمام تر اداروں کا صفایا ہوجاتا ہے، جیسے کہ “ریاست” سوشلسٹ نظام میں ریاست باقاعدگی سے قائم رہتی ہے۔ مگر کمیونزم میں ریاست جیسے سفاک ادارے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح سوشلزم میں ایک قسم کی ڈیموکریسی بھی قائم رہتی ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ انقلاب جتنا تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے تو یہ جمہوری ادارہ بھی بتدریج ختم ہونے لگتا ہے۔ جمہوریت کیا ہے؟ ماسوائے ایک غیر منصفانہ سماجی نظام میں نام نہاد انصاف قائم کرنے والے ایک سرکاری ادارے کے اور کچھ بھی نہیں۔ فرض کر لیجیے اگر اسی ادارے پر نام نہاد انصاف قائم کرنے والے دھوکے باز اور دائیں بازو کے کرپٹ مافیاز آکر بیٹھ جائیں تو کیا جمہوریت، حاکمیت و بدترین آمریت میں تبدیل نہیں ہوجائے گی؟ کیا وہ کرپٹ مافیاز جمہوریت کی دھجیاں نہیں ادھیڑ دیں گے؟

عمومی طور پر ریاست کو بھی ماں کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے بر عکس “کامریڈ لینن” اسے ظلم و جبر کا ایک مشینری سمجھتا تھا۔ اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر اس سفاک ادارے پر جو بھی قابض ہوگیا تو وہ اپنے بلمقابل شخص یا طبقات کو ختم کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ہی دم لے گا۔ تو ڈیموکریسی کا بھی یہی حشر ہوگا اگر یہ حکمران طبقات کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی۔ یہ موجودہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے ڈیموکریسی کی طرح ہوگی۔ جس سے محض سماج کے بالائی طبقات کے لوگ فیض یاب ہوں گے باقی ماندہ مجموعی سماج پر یہ ادارہ قہر بن جائے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس ادارے کے بغیر سماج میں مساوات، برابری اور انصاف باقی نہیں رہے گا۔ نہیں ہر گز نہیں!. یہ تمام تر ادارے طبقاتی نظام کے ہی پیداوار ہیں۔ انسان نے ان اداروں کے وجود کے بغیر بھی ایک ایسا عہد بھی گزارا ہے جہاں مکمل طور پر منصفانہ رواج قائم تھا کوئی حاکم و محکوم، ذات پات، امیر و غریب کا نظام نہیں ہوا کرتا تھا۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان چاہے تو وہ اپنی تخلیقات کو بھی ختم کرسکتا ہے۔

سائنسی نظریات بھی اسی عمل کو درست سمجھتے ہیں کہ نئے اور جدید خیالات و منطق کی کھوج میں پرانے اور قدیم و غیر منطقی خیالات و تصورات کو تسخیر کرنا چاہیے۔ تو جمہوریت کا ادارہ محض طبقاتی سماج کےلیے بہتر ہے۔ مگر ایک منصفانہ سماجی نظام کےلیے اس ادارے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ منصفانہ سماجی نظام قائم کرنے کا یہ خیال ایک عام انسان کو کبھی کبھار خیالی لگتا ہے کیونکہ وہ موجودہ طبقاتی سماج میں انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل و غارت گری، لوٹ ماری، چوری، دھوکہ بازی کو دیکھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک ایسے سماجی نظام کی تشکیلِ نو بھی ممکن ہے کہ جہاں اسی انسان کے ہاتھوں دوسرے انسانوں کا قتل، لوٹ ماری، دھوکہ دہی وغیرہ سب کے سب ختم ہو کر باقاعدگی سے تمام عالم انسانیت خوشحالی کی زندگی جیے گا۔

کیونکہ موجودہ سرمایہ داری نظام نے انسان کو اس طرح خود کی ذات سے بیگانہ کردیا ہے اور اسے ایک ایسے پیرا میٹر پر کھڑا کردیا ہے کہ جہاں وہ محض حسد و کینہ سازی کے علاہ کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ انسان کی اپنی ذات سے، اپنے سے اور مکمل سماج سے بیگانگی کو ختم کرنے کےلیے ضروری ہے کہ اس تمام تر سرمایہ دارانہ سماجی نظام کی بیخ کنی کی جائے۔ اور اس کے بعد اسی انسان کو ایک ایسے شعوری و نظریاتی مراحل سے گزارنا چاہیے جہاں وہ محنت محض اپنی ذات یا اپنے مالک کےلیے نہیں بلکہ مکمل سماج کےلیے کرے۔ اس کے عادات و اطوار کو سماجی بنانا چاہیے۔ ایک ایسا قانون تشکیل دیا جائے کہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے کا استحصال کسی بھی صورت نا کرے۔ تمام کے تمام ذرائع پیداوار زمینیوں، فیکٹریوں، کارخانوں وغیرہ کو سوشلائز کردینا چاہیے۔ تب جاکر یہی انسان ایک مخلص، محنتی و بااعتماد انسان میں بدل جائے گا اور تب اسے کسی جمہوری، ریاستی غرض کسی بھی قسم کے سرکاری ادارے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی جو اسے آداب و اخلاق کےلیے درس و تدریس دے۔ کیونکہ اس نظام کا انسان پہلے جیسا لاشعور، ان پڑھ و دروغ گو نہیں رہا بلکہ اب یہ مکمل اور باضابطہ شعوری انسان بن چکا ہے۔

کمیونسٹ سماج کی تعمیر نو کےلیے عبوری مرحلے یعنی سوشلزم میں ایک ڈکٹیٹر شپ بھی قائم رہتی ہے اور وہ ہے مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ یعنی یہ پرولتاریہ ڈکٹیٹر شپ ہوتی ہے۔ یہ فاشسٹ ہٹلر و مسولینی کی ڈکٹیٹر شپ کی طرح نہیں بلکہ یہ محکوموں اور مظلوموں کی ڈکٹیٹر شپ ہوگی۔ جو ہٹلری فسطائی نفسیات رکھنے والے افراد کو کچل کر رکھ دے گی۔ اسی وجہ سے سوشلسٹ انقلاب کے دوران پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ داروں اور ظالم و جابر حکمرانوں اور رد انقلابی قوتوں کو کچلنے کےلیے دوسرا اور کوئی آلہ نہیں ہوتا ہے ماسوائے اس کے۔ اور اسی ڈکٹیٹر شپ کی بدولت سوشلسٹ انقلاب پایہ تکمیل تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرے گا۔ اسی وجہ سے پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ اس وقت کی اہم ضرورت بن جاتی ہے۔ تو سوشلزم میں ان تمام تر اداروں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ مگر سوشلزم کے آگے کے مرحلے میں یعنی کمیونزم میں ان تمام تر اداروں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

سوشلزم وہ کمیونسٹ سماج ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے پیٹ سے تازہ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ اور ہر لحاظ سے اس پر پچھلے نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے نشانات موجود ہوں گے۔ مارکس ایک جگے پر کہتے ہیں کہ سوشلسٹ نظام میں لوگوں کو برابری کا حق ضرور ملتا ہے لیکن یہ حق بورژوازی حق ہے ابھی تک جو تمام تر حقوق کی طرح یہاں بھی نابرابری کی گنجائش قائم رہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کمیونزم کے پہلے مرحلے میں ابھی تک بورژوا حق قائم ہے لہٰذا سوشلزم یعنی کہ کمیونزم کا پہلا مرحلہ برابری اور اعلٰی انصاف قائم نہیں کرسکے گا۔ ایک حد تک دولت میں فرق، اونچ نیچ بھی باقی رہے گی ۔

لیکن یہ ضرور ہے کہ آدمی کے ہاتھوں آدمی کا استحصال نا ممکن ہوجائے گا کیونکہ تمام تر پیداواری ذرائع فیکٹریوں، مشینوں اور زمینوں پر ذاتی ملکیت قائم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشلزم میں ابھی بورژوا حق پورے طریقے سے ختم نہیں ہوئے تھے۔ جتنا جتنا انقلاب بڑھتا جاتا ہے ( دوسرے مرحلے کی جانب یعنی کمیونزم کی جانب) اسی طرح سے یہ بورژوا حق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بورژوا حق تسلیم کرتا ہے کہ ذرائع پیداوار افراد کی ملکیت ہوتے ہیں۔ سوشلزم انہیں سماج کی مشترکہ ملکیت بنا دیتا ہے۔ اس حد تک اور صرف اسی حد تک بورژوا حق بتدریج غائب ہوجا تا ہے۔ اور سماج مکمل طور پر ایک نئی کروٹ لے کر خود کو کمیونزم میں ڈھلنا شروع کر دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.