بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (شال زون) کی جانب سے ۱۰مئی بروز جمعہ بمقام جامعہ بلوچستان میں “گوادر کی قسمت پر خاردار تار” کے موضوع پہ ایک سرکل کا انعقاد کیا گیا
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (شال زون) کی جانب سے ۱۰مئی بروز جمعہ بمقام جامعہ بلوچستان میں “گوادر کی قسمت پر خاردار تار” کے موضوع پہ ایک سرکل کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد طلباء نے شرکت کی جس کے مہمان خاص بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل حسیب بلوچ تھے۔
کامریڈز نے تاریخی اہمیت پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ قبضہ گیر سرغنےسرمایہ دارانہ بوکھلاٹ کو مٹانے کے لیے پرانے طور طریقوں کو مسلط کررہے ہیں جن میں سے باڑ لگانے جیسے عوامل نمایاں ہیں۔گوادر، باڑ کی کوئی پہلی مثال نہیں ہے اس سے پہلے بھی مختلف کالونائزرز اس عمل کو اپنا چکے ہیں۔ گوادر اس خطے کا ایک اہم معاشی رکن ہے جس کی بنیاد پہ اس خطے کے تمام سامراجی ممالک اپنے پنجے گھڑنا چاہتے ہیں۔
کامریڈز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگِ عظیم اول و دوم کے بعد مختلف ممالک “تیوری آف ونڈ لینڈ “ کی بنیاد پہ اپنی معاشی سرگرمیاں مختلف بحیراہوں میں شفٹ کرتی ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر وہ اپنی فرسودگی برقرار رکھ سکیں۔ ۱۹۵۸ میں جب اومان گوادر کو پاکستان کے زیر انتظام دیتا ہے تو اس سے قبل انڈیا اس سے زیادہ دام آفر کرتا ہے اور حال ہی میں انڈیا پھر سے اپنے پنجے گھاڑنے کی کوشش کرنے کے لیے ایک بیانیہ بھی دیتا ہے۔
ساتھیوں نے مزید بلوچستان کے سماجی حالات پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں باڑ ایک عام ماہی گیر کی زندگی کو اجیرن بنا دے گی ، اسے زندہ رکھ کر مارنے کی کوشش کرے گی جیسا کہ پچھلی دو تین دہاہیوں میں ترقی کے نام پہ صرف لاشیں اور معاشی بدحالی ہی دی گئی بلکل اسی طرح آج پورے کے پورے ماہی گیر طبقے کی شناخت کو ترقی کے نام پہ کچلا جا رہا ہے۔
آخر میں کامریڈز نے یہ کہتے ہوئے اپنے سرکل کو برخواست کیا کہ پاکستان اور چین گوادر کو دیگر عالمی طاقتوں کے خلاف مورچہ زنی کے لئے استعمال کررہے ہیں جس سے بد حالی مزید بڑھے گی اور پھر سے بلوچ کو کرائے کا قاتل بنایا جائے گا جس کے لئے ضروری ہے کہ بلوچ قوم سماجی تضادات کی حقیقتوں کو سمجھتے ہوئے سامراجی قوتوں کے خلاف متحد ہو کر تنظیم کاری کے عمل کو مزید تیز تر کرنا ہوگا۔