بی ایس او خضدار زون کی جانب سے ”نیشنلزم“ کے موضوع پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا

رپورٹ: پریس سیکریٹری خضدار زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن خضدار زون کی جانب سے ہفتہ وار اسٹڈی سرکل بہ موضوع نیشنلز انعقاد کیا گیا جس میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات فرید مینگل نے لیڈ آف دی۔

سرکل میں مرکزی سیکریٹری انفارمیشن نے کہا کہ نیشنلزم یا قوم دوستی کو سمجھنے کےلیے قوم کے تصورات و پس منظر سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ نیشنلزم کسی قوم کا اجتماعی نظریہ ہوتا ہے قوم کا تصور ماضی قریب و بعید میں یورپ و مشرق وسطیٰ کے لٹریچر سے بھی واضح ہو سکتا ہے لیکن اُس دور کے قومی تصور اور آج کے قومی تصور میں فرق ہے موجودہ عہد میں بھی قوم کی اصطلاح مختلف انسانی گروہوں کےلیے نسلی، ثقافتی، جغرافیائی و نفسیاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر کہیں محدود اور کہیں وسیع معنوں میں مستعمل ہے جیسے آزاد قومی ریاستوں، نوآبادیات کے خلاف مزاحم انسانی گروہوں اور قبائلی معاشروں میں قوم ہونے کا احساس الگ الگ ہے لیکن مجموعی سماجی ارتقا کے ساتھ ساتھ قوم کا مفہوم بھی وسیع ہوتا جارہا ہے لہٰذا قوم ایک ایسا انسانی گروہ ہے جس میں تاریخی، تہذیبی، ثقافتی، معاشی، جغرافیائی اور نفسیاتی بنیادوں پر تاریخی ہم آہنگی پائی جائے۔

کامریڈ نے مزید بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نیشنلزم قومی بنیادوں پر ایک سیاسی پروگرام ہوتا جس کے مقاصد میں سامراجی و نوآبادیاتی قوتوں سے قوم کی ثقافت، شناخت، سرزمین، زبان، وسائل، تاریخ اور تہذیب کی حفاظت کے ساتھ قوم کے مستقبل کےلیے ایک آزاد، مساوی اور استحصال سے پاک سماج کی تشکیل کی جدوجہد بھی شامل ہے، قوم پرستی کا جذبہ محکوم خطوں میں شدت رکھتا ہے جس کے تحت قومیں قومی نجات اور وطن کی رکھوالی کےلیے عوامی اتحاد بنانے کی کوشش کرتی ہیں، نیشنلزم کو مختلف ادوار و حالات کے تحت کئی حساب سے متعارف کیا جاتا ہے کچھ علاقوں میں نیشنلزم پر ثقافتی و لسانیاتی عنصر اور کچھ میں سیاسی عنصر نمایاں ہوتا ہے اور نیشنلزم کے تحت ایک قوم میں قومی فکر پیدا کرنے کے ساتھ قومی پرتوں کا دائرہ کار بھی بڑھایا جاتا ہے ۔

سنگت نے کہا کہ جب ہم توسیع پسند اقوام کی قوم پرستی کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ان کی نسل پرستی ، حاکمیت اور اپنی قوم کی برتری کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے لیکن محکوم قوموں کا قومی احساس حاکمانہ ہونے کی بجائے درآمدی حاکمیت کے خلاف مزاحمت سے جڑا ہوتا ہے اور توسیع پسندی کے بجائے محکوم وطن سے بیرونی توسیع پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے کیونکہ نوآبادیاتی عمل و ردِعمل سے محکوم کے نیشنلزم میں انقلابیت کے اصول کارفرما رہتے ہیں جن سے توسیع پسند و قبضہ گیر اقوام نابلد ہوتی ہیں۔ یعنی نیشنلزم کی جدوجہد جتنی انقلابی ہوگی اتنی قوم کے روشن مستقبل کےلیے راہیں ہموار ہوں گی اور استعماری طاقتوں کی شکست بھی ان کی مکمل قبضہ گیری فعلیت پر سیاہ داغ ہوگی آج بلوچ، سندھی کرد اور دوسری محکوم قومیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت استعماری طاقتوں کی محکومی میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ ساری غلام اقوام نیشنلزم کو سیاسی و انقلابی افکار سے لیس کرکے ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور عالمی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد تیز کریں کیونکہ حقیقی قومی نجات کا راستہ یہیں سے نکلتا ہے اور ظلم و استحصال کی ہر قسم کی قباحت واضح کرکے اجتماعی انسانی آزادی کی طرف جاتا ہے۔

آخر میں موضوع سے متعلق سوال و جواب اور مکالمے کی نشست رکھی گئی جس میں نیشنلزم کے کئی پہلوؤں اور تقاضوں پر بات رکھی گئی اور قومی جدوجہد میں نیشنلزم کے اہداف کی جانچ پڑتال سمیت محکوم قوموں کے اتحاد پر روشنی ڈالی گئی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.