بلوچ عورت کا سوال

تحریر: فرید مینگل

چند برس قبل جب بی ایس او نے ”عورت سوال“ کو بلوچ سماج میں جدید مزاحمتی طرز کے ساتھ متعارف کرنے کی کوشش کی تو اس وقت کچھ نادان ساتھیوں نے اس سوال کو لے کر طوفان بد تمیزی برپا کر دیا۔ کسی نے باقاعدہ فیمینزم کو گالیاں بکیں، کسی نے ”عورت سوال“ کو قومی تحریک کےلیے خطرہ سمجھا، بہت سوں نے تو یہاں تک کہا کہ ” عورت سوال“ ایک ریاستی پروجیکٹ ہے جو کہ قومی تحریک کو کمزور کرنے کےلیے لانچ کر دیا گیا یے۔

لیکن بی ایس او کے ساتھی عورت پر ہونے والے دوہرے جبر پر مستقل مزاجی سے بات کرتے رہے، بلوچ کو بیانیہ دیتے رہے اور عورت سوال کو قومی تحریک کا ایک لازمی عنصر سمجھتے اور کہتے رہے۔ خوش قسمتی سے ان ساتھیوں کی جہد ایک رنگ لائی ہے، ایک ناتواں و کمزور سہی مگر اس دوہرے جبر کے خلاف باقاعدہ ایک بیانیہ تشکیل پا چکا ہے۔ بلوچ عورت دوہرے جبر سہنے سے انکار کر چکی ہے۔

بلوچ عورت جہاں سماجی جبر کا شکار ہے تو وہیں پر ریاستی جبر بھی اس کے خلاف اپنے جوبن پر ہے۔ ریاستی جبر نہ صرف بلوچ مرد کو اذیت دے رہا ہے بلکہ ہر بلوچ عورت اس جبر کو برابر سہہ رہی ہے۔ بھاٸی لاپتہ ہو، شوہر مارا جاٸے، والد اغوا کیا جاٸے، شناخت مٹادی جاٸے، وطن لوٹا جاٸے یہ تمام تر ریاستی جبر بلوچ عورت کی روح چھلنی کر دیتا ہے اس کی زندگی کو مفلوج کرکے آہوں سسکیوں سے بھر دیتا ہے، اسے وجودی بحران کا شکار بنا کر جیتے جی مار ڈالتا ہے۔ گزشتہ ایک دہاٸی سے گودی سمی اپنے اغوا شدہ والد کی تلاش میں سرگرداں ہے، سنگت ذاکر مجید کی اماں کے آنسو بیٹے کی تلاش میں خشک ہو چکے ہیں۔ اور یہ اذیتیں سینکڑوں ہزاروں ماٸیں، بہنیں، بیٹیاں، بیویاں جھیل رہی ہیں جو کہ ریاست کی جانب سے بلوچ عورت پر ڈھایا جانے والا جبر ہے۔

اب تو ریاست اس قدر بےباک ہے کہ بلوچ عورت کو ہی مار ڈالنے، اذیت کا شکار کرنے اور لاپتہ کرنے میں نہیں ہچکچا رہی، آج بھی ماھل بلوچ زندانوں میں قید ہے اور اس کی معصوم بیٹیاں ”ماں“ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

ایک طرف یہ ریاستی جبر ہے تو دوسری طرف بلوچ عورت سماجی جبر سے محفوظ نہیں۔ ہر پدرشاہانہ سماج کی طرح بلوچ سماج بھی بلوچ عورت پر تسلسل سے جبر ڈھا رہا ہے۔ آٸے روز کارو کاری کے غیر انسانی الزامات کی آڑ میں بلوچ عورت قتل ہوتی ہے، سماجی بندشوں کے باعث جہنمی زندگی گزار رہی ہے۔ پسند نا پسند اور اپنی مرضی کی زندگی والی تعریف بلوچ عورت کے ذہن میں بھی نہیں آ سکتی، اسے بچپن میں والد، بھاٸی وغیرہ کی تابعداری کرنی ہے تو جوانی میں اپنی خواہشیں اور زندگی کی تمام تر رونقیں شوہر کے نام قربان کرنی ہیں۔ وہ شوہر جو بلوچ لڑکی کے والدین کا انتخاب ہے نہ کہ بلوچ لڑکی کی اپنی پسند۔

بلوچ سماج میں آج بھی یہ قبیح ترین منحوس روایت برقرار ہے جہاں بلوچ مرد کی طرف سے لڑکی کی پیداٸش سے قبل ہی اس کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے کہ اگر لڑکی پیدا ہوٸی تو اس کا رشتہ فلاں کے بیٹے سے کردیا جاٸے گا۔ اور ایسا وعدہ کرکے مکر جانے پر جرگہ یعنی مجموعی بلوچ سماج اس مرد کو ملامت کر دیتا ہے کہ تم نے اپنی بچی کی پیداٸش سے قبل اس کی بولی لگاٸی تھی تو اس بولی سے مکر کیوں رہے ہو؟ پھر شادی کے بعد عورت کی گھٹن زدہ جبری زندگی تو ایک الگ ہی جہنم ہے۔

بلوچ سماج کے اندر عورت پر ہونے والا جبر اس حد تک بھیانک ہے کہ فرد سے لے کر خاندان، خاندان سے لے کر جرگہ اور پھر جرگہ سے لے کر مجموعی سماج تک سب عورت دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔

جرگہ و سردار تو عورت دشمن مشینری ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی آلہ کار بھی ہیں۔ ریاست کے سامنے جتنی جلدی یہ سردار و قباٸلی نظام سجدہ ریز ہوتے ہیں اسی پھرتی و تگڑاٸی کے ساتھ عورت کو کچلتے ہیں۔

ایک دہاٸی قبل نصیر آباد میں زندہ درگور کرنے والی خواتین ہوں یا پھر عبد الرحمٰن کھیترانڑ کے ہاتھوں جبر و جنسی تشدد اور بالآخر اذیت سہنے والی شہید امیراں بی بی ہو، یہ وہ واقعات ہیں جن کا بلوچ سماج میں بلوچ عورت لمحہ بہ لمحہ شکار رہتی ہے۔ جرگہ عورت کا انسانی شرف چھین کر اسے باندی، لونڈی، کنیز بنا دیتا ہے اور پھر اس قبیح عمل کو درست ثابت کرنے کےلیے قباٸلی رسم و رواج، عزت و غیرت، ریاستی مشینری و جبر، اور مذہب سب کا استعمال کرتا ہے۔ مُلّا منبر سے عورت کو تابعداری کا درس دیتا ہے اور سردار تشدد کے ذریعے عورت کو تابعدار بنا دیتا ہے۔

یہاں پھر بلوچ دانشور کا کام تھا کہ وہ اس پورے کے پورے عورت مخالف جبری نظام پر بات کرتا بیانیہ دیتا مزاحمت کرتا، مگر بلوچ دانشور تو خود عورت دشمن اقدامات میں مصروف ہے، اسے خود دانشوری کے نام پر عورت کے استحصال کی لت لگ چکی ہے، وہ عورت کے ساتھ سیلفیاں لینے، تالیاں بجوانے، ہراسانی کو عزت و احترام کا نام دینے اور واہ واہ سمیٹنے میں مصروف عمل ہے۔

الغرض باقی تمام پدرشاہی سماجوں کی طرح بلوچ عورت بھی نہ سماجی جبر سے محفوظ ہے، نہ سیاسی اسپیس میں محفوظ، ریاستی جبر سے تو مجموعی بلوچ سماج محفوظ نہیں۔

ایسے میں بلوچ عورت کو تمام تر ریاستی و سماجی جبر سے انکار کرنا ہوگا، اسے سمّی و سعدیہ، سازین و صبیحہ، سیما و زرناز، بامسار و رخسار اور ماہرنگ بننا ہوگا، ریاستی جبر کے خلاف سینہ سپر ہو کر قباٸلی، سرداری، جرگہ جاتی سماجی جبر سمیت ہر قسم کے استحصال کے خلاف مزاحمت کرنی ہوگی۔ بلوچ سماج کو از سر نو تشکیل دینے کی انقلابی لڑاٸی لڑنی ہوگی جس میں بیرونی حاکم کے استحصال سمیت اندرونی جبر کی بھی کوٸی گنجاٸش نہ ہو، بلوچ وطن پر بلوچ ہو، برابری و انصاف ہو، طبقہ، صنف، ذات پات سمیت تمام تر اونچ نیچ کا خاتمہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.