بی ایس او شال زون کی جانب سے ہفتہ واری اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ سرکل میں کتاب Student Resistance a history of unruly subject کے پہلے چیپٹر پر سیر حاصل بحث کی گئی۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی جانب سے کتاب The students resistance کے پہلے چیپٹر پر تربیتی سرکل دی گئی جس میں مرکزی چیٸرمین سمیت متعدد تنظیمی ساتھیوں اور طلبہ نے شرکت کی اور بحث کا حصہ بنے۔ جب کہ سرکل کی کاروائی شال زون کے ڈپٹی آرگنائزر بلاول بلوچ نے چلائی. اسٹڈی سرکل کا آغاز تعارفی نشست سے ہوا جس کے بعد مرکزی کمیٹی کے رکن حسیب بلوچ نے کتاب کا تعارفی حصے پر بات کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور ضرورت پر بات کی۔ جس کے بعد مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے پہلے چیپٹر پر لیڈ آف دی جب کہ دیگر ساتھیوں نے شاندار کنٹریبیوشنز دیئے۔

ساتھیوں نے موضوع پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یورپی سماج میں پہلی دفعہ بارہویں صدی میں یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آنے سے ان علاقوں کے سماجی و معاشی حالات میں مٶثر تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کے باعث ان اداروں کے گرد آبادیاں بھی قائم ہوئیں۔ طلبہ کا پہلی دفع ایک منظم قوت و گروہ کی صورت میں یکجا ہونے سے ان کے طاقت میں بھی اضافہ ہوا۔ یونیورسٹیوں کے آغاز میں طلبہ نے گروہی مفادات کے تحفظ کےلئے علاقہ مکینوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں اور ناجائز لوٹ مار میں ملوث ہوئے کیونکہ یونیورسٹی کی توسط سے ریاستی آمدنی میں بہتر پیش رفت ہونا شروع ہوا۔اس لئے بادشاہ نے بھی طلبہ کو کھلی چھوٹ دی اور علاقہ مکینوں کے ساتھ زیادتیوں کے باوجود طلبہ کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جاتی۔

مزید کہا کہ ان رویوں نے لوکل آبادی کے غم و غصے میں مزید اضافہ کیا اور وقت کے ساتھ مختلف نوعیت کے جھگڑوں نے جنم لیا جس کے باعث حالات مزید ابتر ہوتے گئے۔ علاقہ مکینوں کو زد و کوب کرنے اور قتل کرنے کے خلاف علاقہ مکینوں نے بھی طلبہ کے خلاف منظم انداز میں مزاحمت دکھایا گیا مگر طلبہ کے خلاف مزاحمت کے بعد بادشاہ نے ٹاٶن کے تمام تر اختیارات یونیورسٹی کے حوالے کیے اور طلبہ کو نقصان پہنچانے پر ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت اقدامات لیے گئے۔

مزید برآں دوستوں نے بات جاری رکھتے ہوۓ کہا کے بارہویں صدی میں طلبہ کی جانب سے عام آبادی کے خلاف پرتشدد رویوں نے طلبہ کے خلاف مختلف قسم کی عوامی تحریکوں کو جنم دیا جس میں مختلف اوقات میں محنت کش و کسان حلقوں نے منظم انداز میں یونیورسٹیوں پر حملے کیے، جس میں درانتی و کلہاڑے جیسے ہتھیاروں کا استعمال ہوا اور طلبہ و اساتذہ کو بھی قتل کیا گیا، طلبہ کے ہاسٹلز میں داخل ہو کر انہیں مارا گیا اور اساتذہ کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ان حالات میں طلبہ نے یونیورسٹی دیگر ٹاٶن میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی جس پر دوبارہ طلبہ کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ یہ تسلسل تیرہویں اور چودہویں صدی تک برقرار رہا اور مختلف یونیورسٹیاں جن میں آکسفورڈ، کیمبرج اور ویانا یونیورسٹی میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ لیکن وقت و حالات کے ساتھ طلبہ کے رویوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگی اور ان کی ترجیحات میں بھی بدلاؤ پیدا ہوا۔

مزید کہا گیا کہ طلبہ کی اصل جدوجہد انیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے جب طلبہ سیاست بھی جدیدیت کی جانب بڑھتا ہے اور عوام کے ساتھ تضادات کے بجائے عوامی تحریکوں کا حصہ بنتے ہوئے ان تحریکوں کو منظم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔

آخر میں تمام ساتھیوں کو اگلے سرکل کے متعلق تاکید کی گئی کہ اگلے سرکل میں کتاب کے دوسرے اور تیسرے چیپٹر پر ساتھی تیاری کر کے آئیں جن پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور ساتھیوں نے عزم کا اظہار کیا کہ بی ایس او کے تربیتی سرکلز کا سلسلہ بدستور جاری رکھا جائے گا تاکہ ساتھیوں کی علمی و فکری ڈویلپمنٹ ممکن ہوسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.