عورت مارچ اور بی ایس او کے مطالبات

تحریر: فرید بلوچ

پدرشاہی دنیا میں باالعموم اور برصغیر پاک و ھند میں انتہاٸی مکروہ چہرے کے ساتھ وحشیانہ انداز میں اپنے عروج پر ہے۔ جہاں عورت پر قدغن لگانے کے مختلف طریقے ایجاد کیے جا چکے ہیں اور عورت کو محکوم رکھنے کے نت نٸے تجربات بھی ساتھ ساتھ کیے جارہے ہیں کہ کس طرح عورت کی آزادی اور اس کی اپنی وجود پر مزید قدغنیں لگاٸی جاٸیں۔ اسے مزید کس طرح محکوم رکھا جاٸے پھر پدرشاہی جبر کو کس طرح دوام دیا جاٸے۔ ان تمام تر قدغنوں کے باوجود عورت کے متعلق ایک منافقانہ غیرحقیقی انسان دشمن جملہ بھی سرعام کہا جاٸے کہ عورت مرد کے ساٸے میں ہی محفوظ اور آزاد ہے کیونکہ وہ کمزور ہے۔ ساٸمن دی بووا نے پدرشاہی کے اسی منفاقت پر تو کہا تھا کہ ” مرد عورت کے پر کاٹ کر کہتا ہے کہ عورت نہیں اڑ سکتی۔“

ایسے میں عورت کی آزادی اور اس کے بنیادی انسانی حقوق کا الم لیے کچھ باشعور انسان عورت مارچ کے پلیٹ فارم پر عورت کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے اس گھٹن زدہ معاشرے میں بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں اور مختلف قسم کی صعوبتیں اور تکالیف برداشت کر رہی ہیں۔

ان جہد کار عورتوں کو شاباشی دیے بنا ایک ترقی پسند اور روشن خیال انسان رہ ہی نہیں سکتا کہ وہ اس تاریکی میں استحصال اور جبر سے چھٹکارے کے حصول کے لیے عورت کی آزادی کا علم لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب تک انہیں بہت سارے سوالات اور مشکلات کا سامنا شہری علاقوں میں کرنا پڑ رہا ہے جہاں کسی حد تک بات کرنے کی گنجاٸش موجود ہے۔ مگر دیہاتی علاقوں بالخصوص بلوچستان جیسے نیم قباٸلی و نیم جاگیرداری سماج میں تو عورت پر بات کرنا ملک الموت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ان ساتھیوں سے کچھ حوصلہ پا کر اور اپنے سماج کا تجزیہ کرکے بی ایس او کے ساتھیوں نے بھی عورت کے سوال کو اٹھایا ہے۔ بی ایس او کے ایک ساتھی نے فیمینزم پر ایک تحریری سلسلہ بھی شروع کردیا جس کی تقریباً ساتھ آٹھ قسطیں شاٸع ہو گٸیں۔ مگر ایک پدرشاہی اور قباٸلی سماج میں عورت کے سوال کو اٹھانا تو غداری کے زمرے میں آجاتا ہے اور پھر اگر وہ قوم اجتماعی طورپر ہی محکوم اور نظر انداز کردہ ہو تو پھر یہ مشکلات اور بڑھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ پدرشاہی سماج کی تنگ نظری اور انتہا پسندانہ رویے سے بی ایس او کو اپنے ساتھی کے اس تحریری سلسلے کو بھی روکنا پڑا۔

اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچ سماج میں عورت مارچ اور عورت کی آزادی کے متعلق سوال اٹھانا کتنا مشکل بلکہ ناممکن حد تک مشکل کام ہے۔ مگر اس گھپ اندھیرے میں بھی ہم عورت مارچ کے پرعزم ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے ہمقدم ہیں۔

اس سوال کو اور زیادہ وسعت دینے اور خصوصاً ایک نیم قباٸلی و نیم جاگیردارانہ سماج میں اٹھانے کے لیے ہمیں وہاں کے عورت پر ہونے والی جبر کو اور زیادہ اٹھانا ہوگا ترجیح دینی ہوگی تاکہ عورت مارچ اپنی تحریک میں اس جبر زدہ عورت کو بھی شامل کرے جو کہ مرد کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔ جسے طاقتور اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کرکے دھشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مردانہ عزت و غیرت کی آڑ لے کر اسے قتل کردیا جاتا ہے اور باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت یونیورسٹی آف بلوچستان میں اسے ھراساں کرکے پدرشاہی حوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بی ایس او کا اپنے ہم خیال اور عورت مارچ کے باہمت ساتھیوں سے مطالبہ ہے کہ 2020 کے عورت مارچ میں بی ایس او کی طرف سے مندرجہ ذیل مطالبات کو انتہاٸی پرجوش انداز میں اٹھایا جاٸے۔ تاکہ بی ایس او اس تنگ نظر قباٸلی سماج میں عورت کے سوال پر کام کرسکے اور پدرشاہی قباٸلی سماج میں ایک دراڑ پیدا کر سکے۔ اور اس طرح ہم سب مل کر بلوچستان میں بھی باقاعدہ طورپر عورت کی آزادی اور پدرشاہی سماج سے چھٹکارے کے لیے کام کر سکتے ہیں

بی ایس او کے مطالبات

بلوچستان یونیورسٹی ھراسمنٹ اسکینڈل کے منصوبہ سازوں اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کاررواٸی کرکہ سزا دینا۔ اور تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ سل قائم کرنا

بلوچستان کے طول و ارض سے اٹھاۓ گئے لاپتہ بلوچ خواتین کی فوری بازیابی اور جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ملوث مجرمان کو بے نقاب کرکہ قانونی کاروائی کیا جائے, نیز بلوچ خواتین کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے

بلوچستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کا خاتمہ اور مرضی کے خلاف شادی پر پابندی عائد کرنا

بلوچ لڑکیوں کی تعلیم میں حاٸل سماجی و ثقافت رکاوٹوں کو دور کرنا

بلوچستان کے دیہی علاقوں میں زچہ بچہ دیکھ بھالی مراکز کا قیام

بلوچستان میں کم از کم باقاعدہ پانچ مزید ویمن یونیورسٹیز قیام عمل میں لایا جاٸے اور ہر تعلیمی ادارے میں معیاری ہاسٹل کی سہولت کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published.