تربت یونیورسٹی؛ آنلائن کلاسز، زمینی حقائق

تحریر: ظفر رند 

ملک کے دیگر یونیورسٹیوں کی طرح تربت یونیورسٹی نے بھی آنلائن کلاسز کے آغاز کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کیا ہے۔ اس نوٹیفئکشن کو دیکھ کر دل و دماغ میں بہت سارے سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا تربت یونیورسٹی کا ایڈمنسٹریشن اس بات سے ناواقف ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح مکران میں بھی انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے؟

گذشتہ چند مہینوں سے بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں آنلائن کلاسز کے خلاف اسٹوڈنس روڈوں پر نکلے ہیں اور شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اس جد و جہد کے دوران اسٹوڈنس کو زندانوں میں قید بھی کیا چکا ہے۔

تربت جو بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے یہاں کے عوام انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ یہاں سگنل ٹھیک سے کام نہیں کرتے تو سوچیں انٹرنیٹ کی کیا صورت حال ہوگی۔ تربت یونیورسٹی کے زیادہ تر اسٹوڈنس ایسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انٹرنٹ تو دور کی بات ہے فون کے سگنل بھی نہیں آتے۔
مثلا بلیدہ، مند، تمپ، دشت، شہرک، سامی شاپک اور دیگر علاقوں کے اسٹوڈنس کے ساتھ کیا یہ ایک زیادتی نہیں ہوگی؟ کیا یہ انکو تعلیم سے دور رکھنے کا منصوبہ نہیں ہے ؟

اگر تربت یونیورسٹی اپنے ادارے کا جائزہ لے تو وہاں ہاسٹل میں موجود اسٹوڈنس انٹرنیٹ سمیت بہت سے بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ ایسی صورت حال میں آنلائن کلاسز کا آغاز کرنا اسٹوڈنٹس کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے۔

ہم بحثیت تربت یونیورسٹی کے طالب علم اپنے تعلیمی ادارے کے زمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور اسٹوڈنس کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.