بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن خضدار زون کا اجلاس زیر صدارت زونل آرگنائزر منعقد، شہید حیات بلوچ کے بیہمانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی

رپورٹ: پریس سیکریٹری ، خضدار زون 

بی ایس او خضدار زون کا اجلاس آج بروز ہفتہ وڈھ میں منعقد ہوا جس کی صدارت زونل آرگناٸزر عمران بلوچ نے کی۔ اجلاس میں زونل ڈپٹی آرگناٸزر وحید انجم بلوچ، زونل پریس سیکریٹری سراج بلوچ، طارق عزیز بلوچ، آصف بلوچ، نیک جان لہڑی، محمد جان درویش، فرید مینگل و دیگر ارکان شریک ہوٸے۔ اجلاس میں عالمی و علاقاٸی صورتحال، تنظیمی امور، حیات بلوچ کے بیہمانہ قتل سمیت مختلف ایجنڈاز کو زیرِ غور لایا گیا۔

عالمی صورتحال پر بات کرتے ہوٸے صدرِ اجلاس نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا پر سرمایہ داروں کی بے رحمانہ اور انسانیت سے عاری پالیسیوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جہاں نسل پرستی، فرقہ واریت، علاقاٸیت کی بنیاد انسان دشمن رویوں کو براہ راست پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ براہ راست وینزویلا کی عوامی حکومت پر شب و خون مارنے کی آڑ میں مختلف حربے آزما رہا ہے تو دوسری طرف یہی امریکہ ایرانی عوام کو مزید بھوک و افلاس کا شکار کرنے کےلیے ایرانی معیشت پر مختلف طریقوں سے بار بار حملے کر رہی ہے۔ ایران سمیت مختلف ممالک کو جنگی تیاری کی ایک ایسی ریس میں لگایا گیا ہے کہ جس سے عالمی امن دشمن اسلحہ فروش سرمایہ دار دن رات پیسے بٹور رہے ہیں جبکہ ان کے عام محکوم عوام کو صحت، تعلیم و روزگار جیسی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں اور اس عالمی وبا #covid__19 نے تو سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے۔ جہاں عام عوام مزید غربت کی اتھاہ گہراٸیوں میں گر گٸی ہے تو دوسری طرف ان سرمایہ داروں کی ناکام پالیسیوں کی بدولت دنیا بھر میں اب تک اس وبا نے لاکھوں انسانوں کی جان لی ہے۔

ایک طرف ترکی دبٸی اور انسان دشمن اسراٸیلی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی پر سوال اٹھا رہا ہے تو دوسری طرف وہی ترکی از خود کردوں کی براہ راست نسل کشی میں مصروف عمل ہے جب کہ ترکی کے سفارتی تعلقات 1949 سے اسراٸیلی ریاست کے ساتھ قاٸم ہیں۔

انسانیت کو اس وقت ان سرمایہ داروں نے ایک ایسی دھکتی آگ میں جھونک دیا ہے جہاں بھوک، افلاس، غربت، بیروزگاری، بد امنی اور عوامی بد حالی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے محکوم اقوام و مظلوم طبقات کو اپنی سماجی، سیاسی اور معاشی آزادی کے لیے ان انسان دشمن سرمایہ دار منافقوں سے براہ راست بھڑنا ہوگا اور اپنی ایک نٸی عوامی طاقت قاٸم کرکے ان درندوں کو شکست دینا ہوگا تاکہ عالمِ انسانیت اس بربریت و درندگی سے نجات مل سکے۔

علاقاٸی صورتحال پر بات کرتے ہوٸے سنگت نے کہا کہ اس وقت ریاست اور عوام کے بیچ عدم اعتماد کی خلا مزید تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ عوامی آزادی پر قدغنیں مزید بڑھ رہی ہیں جہاں سوال اور تعمیری تنقید تک کی کوٸی اجازت نہیں۔ اگر کوٸی سوال اٹھا بھی دیتا ہے تو اسے بلوچ عوام کی طرح دن دیہاڑے جبری طور پر لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں منتقل کیا جاتا ہے جس کی واضح مثال صحافی مطیع اللہ جان اور لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والے پروفیسر سارنگ جویو کا لاپتہ ہونا ہے۔ ریاست اور شہریوں کے بیچ بد اعتمادی کا بڑھتا یہ خلا یقینا کسی بہت بڑے لاوا کے پکنے سبب بن سکتا ہے۔

تربت میں طالب علم حیات بلوچ کے عسکری اہلکاروں کے ھاتھوں بیہمانہ قتل پر اجلاس میں کہا گیا کہ گزشتہ دو دہاٸیوں سے بلوچستان میں ظلم و جبر، وحشت و درندگی کی تمام حدود کو پار کیا گیا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر عام بلوچ عوام کو درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شہید حیات بلوچ ایک قابل محنتی طالب علم اور بلوچ قوم کا ایک روشن ستارہ تھا جسے ان وحشیوں نے اس کی ماں باپ اور بہن بھاٸیوں کے سامنے پہلے گھسیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کے ھاتھ پیر باندھ کر اسے بے رحمی سے شہید کر دیا گیا۔ اور شہید حیات کا واقعہ نہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ یہ آخری واقعہ ہوگا، جب تک ان بے لگام اداروں کو لگام نہیں ڈالی جاتی اور انہیں عوامی طاقت و عوامی مزاحمت کے ذریعے ایسے گھناٶنی اعمال سے باز رہنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ شہید حیات کے قتل میں ملوث ادارے کو قانون کے کٹہرے میں لانے کےلیے اور ان سے باز پرس کرنے کےلیے ہمیں ایک عوامی مزاحمتی لہر کے بیداری کی ضرورت ہے، ورنہ درندگی و قتل و غارت کا یہ سلسلہ مزید برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

تنظیمی امور کے ایجنڈے میں تنظیمی بڑھوتری سے متعلق اہم فیصلہ جات لیئے گئے اور بی ایس او کو فعال و منظم کرکہ طلبہ کی مضبوط قوتیں تعمیر کرنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.