عورت اور مزاحمت

تحریر: فیصل بلوچ 

ایک دوست سے بات کررہا تھا تو وہ کہنے لگا کہ عورت پر ظلم تو صدیوں سے ہوتا آرہا ہے لیکن اس نے کھبی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی کھبی مزاحمت نہیں کی۔ کافی لوگوں کے ذہن میں شاید یہ ہو تو میں نے سوچا کہ میں اپنا نقطہ نظر بیان کروں۔

میرے نزدیک عورت نام ہی مزاحمت ہے پھر آپ پوچھیں گے کہ کیون آج تک مزاحمت کامیاب نہیں ہوئی؟ وہ اس لیے کہ مزاحمت کےلیے جو ھتیار درکار ہیں وہ ابھی موجودہ تناظر میں عورت کے پاس نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر عورت کی آزادی کےلیے ضروری ہیکہ اس کے پاس ذاتی ملکیت ہو۔ کام کرنے کی خودمختاری ہو اور اس طرح کی کافی چیزیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک عورت جب نوکری کرتی ہے اور چند پیسے کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس کی مزاحمت اور ایک ایسی عورت کی مزاحمت جو روز مرہ کی ضروریات کیلئے کسی مرد پر انحصار کرتی ہو دونوں میں کافی فرق ہوگا۔

اور اگر ہم آج کی بات کریں تو عورت ہمیں ہر پلیٹ فارم پر آگے نظر آنے کو ملتی ہیں۔ وہ اس لیے کہ آج کی عورت مزاحمت کے ساتھ ساتھ ایک سوچ رکھتی ہیں۔ جس طرح ابھی بھی ہمیں ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ عورت تو انسانوں میں شمار ہی نہیں ہوتی۔ جب چاہے استعمال کرلیا اور جب چاہے چھوڑ دیا۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت ذات بےحس ہوتی ہیں تو اس طرح کی چیزوں سے مزاحمت جنم لیتی ہیں گو کہ وہ گھریلو ہو یہ معاشرے میں کہیں اور۔

جس طرح ہمارے آباؤاجداد ایک میر و معتبری کی ذہنیت کے حامل تھے۔ اسی طرح اگرچہ یہ شاید کنسپٹ ختم ہوئ ہو معاشرے میں لیکن پھر بھی یہی سوچ آج تک زندہ ہے ہمارے گھروں میں۔ اسی طرح “فینن” اپنے ایک کتاب میں لکھتا ہیکہ اگرچہ ایک محکوم قوم پر ظلم ڈھاتے رہوگے تو وہ اپنے سے نچلے طبقے کے لوگوں پر عاملیت والی ذہنیت اپناۓ گا۔

سماج میں عورت کا کیا کردر ہیں؟
سماج میں عورت صرف ضروریات تک محدود رکھی گئی ہیں۔ سماج نے عورت کے کردار کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے۔اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو بلخصوص بلوچ گھرانے میں بیٹھی کو بیٹھے سے زیادہ پیار دیا جاتاہے۔ ہر خواہش پوری کی جاتی ہیں۔ مگر بات جب اپنی مرضی سے آ گے پڑھنے اور زندگی گزارنے کی آتی ہیں تو تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ گھرانے بھی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتےہیں۔ یہیں سے ظلم اور حیوانیت کا آغاز ہوتا ہے اور ہم اس حقیقت سے آنکھ چرا کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح کتنی ہی لڑکیوں کو پرائمری یا میڈل کے بعد پڑھنے نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں اسپورٹس فیسٹیولز میں حصہ لینے بھی نہیں دیتے۔ اگرچہ وہ یہ کر بھی لیتی ہیں تو فوراً فتویٰ جاری کیے جاتے ہیں۔ جس طرح چند روز قبل ایک بہت ہی دل خراش واقعہ دیکھنے کو ملا کہ بلوچستان کی ایک ہونہار بیٹھی کو بےدردی سے قتل کردیا گیا۔ شاہینہ شاہین کون تھی؟ وہ ایک سوشل ایکٹیوسٹ اور آرٹسٹ تھی۔ شاہینہ شاہین جو کہ پی ٹی وی پر مارننگ شو پروگرام کی میزبانی بھی کرتی تھی اور ایک بلوچی میگزین “دزگہار” کی مدیر بھی تھی۔ وہ بلوچستان بلخصوص مکران میں لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق کی علمبردار تھیں۔ خواتین کے حق و حقوق اور تعلیم پر کھل کے بات کرتی تھی۔

2012 میں اسی سلسلے میں دزگہار چاگردی دیوان تنظیم کی پلیٹ فارم سے تعلیمی اور آرٹسٹ مقابلے کی تقاریب منعقد کی تھی اور حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ پھر اپنے علاقے تربت میں آکر آرٹس کی فروغ کیلئے مکران آرٹس اکیڈمی کھلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے معاشرے کو اپنے رنگین الفاظوں سے آشنا کیا تھا۔ اسی طرح آج صرف شاہینہ شاہین قتل نہیں ہوئی بلکہ وہ ہمت اور آرٹس کی دنیا کو قتل کر دیا گیا۔ آخر اتنی جدوجہد کے باوجود شاہینہ شاہین کو کیوں قتل کردیا گیا؟ کیا خون اتنا سستا ہو گیا ہے کہ کوئ جب چاہے کسی کو بھی قتل کردیتا ہے۔

آج کے بلوچ بہت غیرت غیرت کرتے ہیں لیکن اصل میں ان کی غیرت کمزور عورتوں پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئ لڑکی کچھ کرنا چاھتی ہو۔ مثال کے طور پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاھتی ہو۔ تو ان کی غیرت جاگ جاتی ہے کیونکہ موجودہ تعلیم کے نظام کو دیکھ کر باہر جانا پڑھتا ہے تعلیم حاصل کرنے کیلئے۔ بس انہیں عورت کے روپ میں غلام چاہیے ہوتا ہے۔ اسی طرح شاہینہ شاہین جس طرح سے ایک معاشرے کے گندے نظریے کو ترک کرکے اپنی اور آئیندہ آنے والی نسلوں کے خوابوں کو تعبیر دینے کیلئے جہد کررہی تھی۔ اسی طرح مہراب گچکی جیسے لوگ جو خود کو بہت غیرت مند سمجھتے ہیں غیرت کے نام پر کمزور عورتوں پر زور ہوتے ہیں اور بےدردی سے قتل کردیتے ہیں۔ واہ رے بلوچ تیری تاریخ میں تو عورتوں کو اس طرح ذلیل کر کے تماشہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ عورت کا ایک الگ ہی مقام ہوتا تھا۔ لیکن تیرے سپوتوں کی غیرت صرف عورت پر ہی حاوی ہوتی ہے۔

شاہینہ رنگون کی دنیا کا منفرد حصہ تھی۔ وہ دن اب دور نہیں جب ہر بلوچ عورت مزاحمت کی راہ اختیار کرینگے مہراب گچکی جیسے لوگوں کو مٹانے کیلئے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشرے کی ترقی کی کنجی خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ ہے۔ عورتوں کو ان کے حقوق دینا ہماری ایمان اور آئین کا حصہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.