چبھتی نگاہیں

 رخسار بلوچ

سمینہ میری سہیلی ہے، میری کل کاٸنات ہے، میری سکھی ہے، میرا ہمراز و دلدار ہے۔ بچپن میں ہم دونوں ساتھ پلے بڑھے کھیلے کودے۔ گلی محلے میں سب ماسیوں (بلوچ ”آنٹی“ کے لیے احتراماً لفظ ماسی استعمال کرتے ہیں) کی آنکھوں کے تارے تھے۔ وہ اس لیے نہیں کہ ہم بہت ہی خاموش و شریف تھے۔ نہیں! بلکہ وہ اس لیے کہ ہم شرارتی تو تھے لیکن ہم دونوں کی شرارتوں میں اپنائیت ہوتی تھی، پیار ہوتا تھا، مٹھاس ہوتی تھی۔ تبھی تو گراناز ہم سے ہمیشہ جیلس ہو کر اسکول میں ہمارے نوٹ بک چراتی تھی تاکہ ہم کلاس میں ٹیچر کے سامنے تو کم از کم نیچا دکھیں۔ آٹھویں تک پہنچتے پہنچتے ہم دونوں ہر سال اوّل و دوٸم کے پوزیشن لے اڑتی تھیں۔ لیکن ہماری اس دوستی و محبت اور ہمرازی کو کسی بدبخت کی نظر لگ گٸی۔

ہوا یوں کہ ایک دن میں صبح سویرے سمینہ کے گھر گٸی کہ چلو اسکول چلیں لیکن اس دن اس کی امی جان ماسی در بی بی نے مجھ سے کہا کہ آج کے بعد سمینہ تمہارے ساتھ اسکول نہیں آٸے گی۔ میں سمینہ سے ملنا چاہی مگر ماسی نے مجھے روک دیا۔ اور میں گھستے پیروں کے ساتھ اسکول چلی گٸی اور چھٹی تک دماغ میں سمینہ گھوم رہی تھی۔ دوپہر کو گھر آ کر میں نے بستہ رکھا اور وردی بدلے بغیر سمینہ کو دیکھنے چلی گٸی۔ لیکن ماسی تھی کہ جلاد بن کر مجھے ڈانٹ پلادی اور سورِ اسرافیل کی طرح یہ افشاں کردیا کہ سمینہ کی شادی کر وا رہے ہیں ہم لہٰذا اب وہ بچیوں کے ساتھ نہیں کھیلے گی۔

یہ ایک اعلان نہیں قہر تھا جو مجھ پر نازل ہوا۔ میں نم آنکھ لیے گھر آگٸی اور سوچتی رہی کہ سمینہ تو فقط 14 سال کی ہے مجھ سے بھی چھ ماہ چھوٹی ہے۔ اس کی شادی کیسے کی جا سکتی ہے آخر۔۔۔۔؟ وہ تو کل میرے ساتھ گڈا گڈی کھیل رہی تھی۔ ہم تو کل تک رحیمہ آنٹی کےلیے گلی کے دکان سے تمباکو و گڑاکو لینے جاتے تھے اور میں اس سے گڑیاٶں کی شادی کرانے پر لڑ پڑتی تھی۔ اب وہ اچانک سے کیسے بڑی ہوگٸی اور شادی کےلیے تیار کیسے ہوگٸی۔ یہ سوچ کر میں بھی اگلے چند دنوں تک روتی رہی اسکول نہ جاسکی۔

کچھ دنوں بعد مجھے پتہ چلا کہ اسکول سے نکال دیئے جانے کے ایک ھفتے بعد چپکے سے سمینہ کی شادی اس کے ماموں کے بیٹے رفیق سے کرا دی گٸی ہے۔ اور اسے سسرال لے گئے ہیں۔ اس کے پانچ مہینے بعد مجھے اپنی کاٸنات اپنے سمینہ کی شکل دیکھنے کا موقع ملا جب وہ اپنے میکے آ گئی تھی۔

جیسے ہی میں اس کے گھر گٸی تو سمینہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ لیکن میں نہیں روئی کیونکہ مجھے سمینہ کے سینے میں لگی آگ کا علم نہیں تھا۔ میں تو اس وقت اپنے آنسو پی کر اپنی سہیلی کو حوصلے دے رہی تھی۔

ماسی نے موقع بھانپ کر ہم دونوں کو کمرے میں اکیلا چھوڑ دیا اور خود چلی گئیں۔ لیکن سمینہ کے آنسو تھے کہ تھم نہیں رہے تھے۔ سمینہ مجھے اپنی داستان بتانے لگی۔

رخسار! یہ جو ہمارا سماج اور پھر اس میں یہ جو اپناٸیت کے سارے رشتے بندھن ہیں اور ایک دوسرے کےلیے محبت و اپنائیت کا جو دکھاوا ہے نا۔۔۔ میری جان، یہ سب جھوٹ ہے منافقت ہے۔
آج سے پانچ مہینے قبل مجھ پر جو رشتوں اور عزت و اپنائیت کی آڑ لے کر قیامت ڈھائی گٸی تھی نا، یہ سب اس کھوکلے اور دقیانوسی سماج کا کیا دھرا جبر ہے۔ مجھ سے میرا بچپن، میری تعلیم، کھیل کود اور میری سہیلی جو چھین لی گٸی تھی نا، شادی کے نام پر خاندان کی عزت کے نام پر وہ کوئی باہر کے نہیں بلکہ میرے گھر والے ہیں۔

وہ آنسو پونچھ کر اب میری گود میں لیٹ گٸی اور کچھ دیر خاموشی کے بعد پھر سے بولنے لگی؛ رخسار، رفیق مجھ سے 10 سال بڑا ہے اور خاندان کی عزت اور خاندانی رشتوں کے لیے مجھے بلی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ پتہ ہے، جس دن یہاں سے مجھے لے جایا گیا اس کے ٹھیک 20 دن بعد میرا شوہر دبٸی چلا گیا۔ اور میرے دیور نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ بیٹی! یہ بیٹی لفظ بھی اب مجھے منحوس لگتا ہے۔ یہ سارے جو عزت کے نام پر اعزاز ہمیں دیئے جاتے ہیں نا، میری جان! یہ سب دھوکہ ہے اور یہ ہمیں بیٹی، اماں، عزت، ننگ کہہ کر ہمارا گلہ گھونٹ رہے ہوتے ہیں۔
میرے شوہر کے جانے کے بعد میرا خدا اب میرے سسرال کے دوسرے مرد تھے۔ حکم یہ تھا کہ میں ان کی اجازت و حکم کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی۔ اور میں گھر کی عزت ہوں، ننگ و ناموس ہوں اس لیے میں گھر میں بند رہوں گی۔ یہ عزت والا بہانہ ہے میری جان! یہ ہمیں بند کرکے در اصل ہماری حالت دنیا سے چھپانا چاہتے ہیں تاکہ ہماری بدحالی اور کسمپرسی کا کسی کو پتہ نہ چلے۔

اس دوران وہ اٹھ کر بیٹھ گٸی اور پھر سے اس کے آنسو خاموشی سے رواں ہوگٸے۔ میرے تو رخسار پر آنسو پہلے ہی سے جاری تھے۔ وہ پھر سے کہنے لگی رخسار، میں پانچ ماہ قید رہی ہوں۔ بامشقت جہنمی قید جھیل آئی ہوں۔ تمہیں پتہ ہے وہاں مجھے دیور اور سسر کے حکم نامے کے ساتھ ساتھ اپنی ضرورتوں پر بھی چپ سادھنی تھی۔ جلد بازی میں اور رشتوں کی پاسداری کےلیے مجھے اچانک سے یہاں سے بنا کسی سامان کے رخصت کیا گیا تھا۔ وہاں مجھے اس کے بعد نہ کپڑے ملے نہ جوتے۔ اور جب میں کچھ مانگنے کی غلطی کر جاتی تو مجھے کہا جاتا کہ تمہارے گھر والوں نے ہمارے گلے ایک بھکارن ڈالی ہے۔ ارے کھانا بھی مجھے کسی مانگنے والے فقیر کی طرح دی جاتی تھی اور میں چپ چاپ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر آنسوؤں کے ساتھ کھا لیتی تھی۔

میرے آنسو بھی مصیبت تھے جس دن دیور میرے آنسو دیکھتی تو اگلے دو دنوں تک میرا جینا حرام تھا کیونکہ میرے آنسو ان کے مطابق میری ”مکّاری“ کے دلیل تھے۔ طبیعت خراب ہوتی تو بتا نہیں پاتی کہ اس کے بعد مجھے دوا دلا دیئے جانے کی بجائے بہانے اور مکر کرنے کے طعنے ملتے تھے۔

وہ مجھ سے لپٹ کر کہنے لگی ”میری جان دعا کرو خدا تمہارے دشمن کو بھی اس سماج میں پیدا کر کے یوں ذلیل و خوار نہ کرے، جہاں تم اپنے وجود سے بھی بیزار ہوجاٶ۔“ میں اب وہاں نہیں جاؤں گی میں اب مزید قیدی و باندی بن کر نہیں رہ سکتی۔

ایک سال تک سمینہ اپنے امّی کے گھر رہی۔ لیکن امی کے گھر بھی اسے اب وہ مقام نہیں مل رہا تھا جو شادی سے پہلے کا تھا۔ ایک سال بعد اس کے سسرال والے پھر آگٸے اور سمینہ کو لے گٸے مگر اس بار مشقتیں ہزار گنا بڑھ چکی تھیں۔ ہر بات پر یہ طعنہ تھا کہ ہمارے خاندان کی عزت کا خیال نہیں، معمولی باتوں کو لے کر مسٸلہ بناتی ہے۔ اس بار مشقت کے ساتھ ساتھ زہنی اذیتوں میں بھی اضافہ ہوگیا اور سمینہ کی طبیعت ناساز ہوتی گٸی۔ اس دوران اسے علاج کے بجائے زہنی اذیتوں کے مزید ڈوز پہ ڈوز دیئے گٸے، جیسا کہ بلوچ سماج میں ہوتا ہے۔ بیمار ہونے پر بہو کو ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا ہے سمینہ کے ساتھ بھی یہی ہوا اس کے دیور نے اس کے والد کو فون کرکے بتایا کہ اپنی بیٹی کو آ کر لے جاؤ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔

میکے پہنچنے پر ماں باپ سمینہ کے علاج میں جُت گٸے۔ لیکن بلوچ سماج میں شوہر تو زوجہ کا مالک ہوتا ہے، بیوی اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ سمینہ کو علاج کےلیے میکے لے جانے پر شوہر بپھر گٸے اور ان کی بلوچی غیرت جاگ گٸی۔ وہ غیرت جو عورت کو بنیادی ضروریات کے نہ ملنے پر کبھی نہیں جاگتی، وہ غیرت جو عورت کے پانچ پانچ کلومیٹر دور سے پانی ڈوھنے پر کبھی نہیں جاگتی، وہ غیرت جو عورت کے ساتھ جبر پر نہیں جاگتی۔ لیکن بیوی یا بیٹی کے زرا سی آزادی پر جاگ جاتی ہے۔ بلوچی غیرت کے جاگنے پر اسے اس کے شوہر نے یہ کہہ کر طلاق دیا کہ مجھ سے اجازت لیے بغیر آخر وہ میرے گھر سے باہر نکلی کیسے۔

سمینہ کی طلاق کو اب دوسال ہوگٸے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوگٸے ہیں۔ اس نے ان دکھوں دردوں اور مظالم پر مسکرانا بھی سیکھ لیا ہے۔ مگر سماج ہے کہ سب کچھ یاد رکھ چکی ہے۔ سمینہ کہتی ہے جب میں باہر کہیں نکلتی ہوں یا کسی کے گھر جاتی ہوں تو مجھے طلاق یافتہ بے بخت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باہر نکلنے پر مجھے مردوں کی زہریلی بد نظریں چبھتی ہیں کہ یہ لڑکی طلاق یافتہ ہے۔

بھلا اب اس میں سمینہ کا کیا قصور کہ وہ طلاق یافتہ ہے؟ سمینہ کو تو جانتی بھی نہیں تھی کہ وہ خاندانی عزت اور رشتوں کی پاسداری کےلیے بیاہ دی جا رہی ہے۔ اس سے اس کا بچپن اس کی ہنسی چھیننے والے اور تھے۔ اس پر ظلم و اذیت کے پہاڑ توڑنے والے اور تھے۔ اس کو اس کی زندگی کے سہانے سپنوں سے محروم کرنے والے اور تھے۔ اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا سماج تھا سماجی ساخت اور اس میں ڈھکے چھپے دقیانوسی رسم و رواج تھے۔ اور اس کو ایک دو تین کرکے طلاق دے کر ٹشو کی طرح پھینکنے والا کوئی بھی اور تھا۔ اب ان ساری باتوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسے زہریلی اور چبھنے والی نظروں سے دیکھنا ضروری کیوں ہے۔

اگر تمہیں عورت کی عزت کرنی ہے تو اس کو اس کے فیصلوں میں آزاد کرکے اس کی عزت کرو۔ اسے اپنے برابر آنے کا موقع دے کر عزت کرو۔ اس کو ایک کماڈٹی یعنی شے بنا کر نہ رکھو۔ وہ تمہاری عزت نہیں بلکہ ایک انسان ہے۔ اسے انسان رہنے دو۔ اور سب سے ضروری بات عورت کو عزت، غیرت، ننگ و ناموس کہہ کر اسی آڑ میں اس کے وجود کے ساتھ کھلواڑ مت کرو۔

آج میری سُکھی سمینہ اس سماج اور اس کے ریت روایات و عورت دشمن اقدار کی وجہ سے دکھوں کی ایک مالا بن چکی ہے۔ وہ ہنسنا، گھلنا، ملنا اور مسکرانا بھول چکی ہے۔ آج وہ ایک طلاق یافتہ عورت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ کیونکہ بلوچ سماج میں “جنوزان” ہونا بدترین براٸی ہے۔ اس سماج کے روایات نے مرد کو کبھی جوابدہ نہیں بنایا لیکن سمینہ عورت ہوکر ہر قدم پر سوالات و گندی نظروں کی بوچھاڑ میں رہتی ہے۔ سمینہ اب وہ سمینہ نہ رہی جس کے ساتھ میں پنجگور کی گلیوں میں کھیلا کرتی تھی۔ یہ سمینہ اب ایک دکھوں کا وجود ہے جو سماجی اذیتوں کی بدولت اپنے دکھی وجود سے بھی بیزار ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.