روٹی روزگار پہ بندشیں

تحریر : لالا ماجد

صبح کی پہلی آزان نے حسن کو نیند سے جگا دیا۔
حسن بستر پہ لیٹے مزید سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک طرف سے دادی اور دوسری جانب سے اماں کی آواز اس کے کانوں میں اس طرح گونج رہی تھی گویا حسن کسی رش کش میں گھرا ہوا ہو۔ لہٰذا دادی اور اماں کی جیت ہوئی اور حسن اٹھنے پر مجبور ہوگیا، اپنی چادر اور سگریٹ اٹھا کر باورچی خانے کی جانب چل پڑا۔

چادر اپنی کمر پر باندھ کر حسن سگریٹ کے کش لگانےلگا اور انتظار کرنے لگا کہ کب امی نماز پڑھ کر چائے بنانے میں مصروف ہو جائے، اتنے میں حسن کی اماں باورچی خانے میں آئی اور دادی جو اتنا چل پھر نہیں سکتی تھی مگر صبح کا ناشتہ حسن کے ساتھ کرنا وہ فرض سمجھتی تھی کیونکہ دادی ہر صبح حسن کے سگریٹ پینے پر اس سے خفا ہوتی اور ناراضگی کا اظہار کیا کرتی مگر دونوں میں اتنا پیار تھا کہ جیسے ہی چائے ختم ہوتی تو ناراضگی ختم ہو جاتی۔

حسن جو چوبیس سال کا تھا اور اپنے گھر کا ذمہ دار بھی تھا جو ایک گاڑی کا مالک بھی تھا جسکے ذریعے وہ اپنے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ بہن بھائیوں میں حسن ہی سب سے بڑا تھا اکلوتا بھائی اور دو بہنیں جو دس سے بارہ سال کی تھیں جو مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔

سورج طلوع ہوتے ہی حسن نے گاڑی اسٹارٹ کر لی اور
غسل کرنے کیلئے گیا اتنے میں وسیم آیا جو پندرہ سال کا لڑکا تھا اور حسن کے ساتھ ہی ہوتا تھا دونوں صبح روانہ ہوتے اور مغرب تک واپس گھر آیا کرتے۔ حسن وسیم کا بہت خیال رکھتا کیونکہ وسیم بھی اس عمر میں اپنے گھر کا واحد سہارا تھا جو کماتا اپنی ماں کے ہاتھوں میں رکھ دیتا۔
حسن کا علاقہ ایک باڈری علاقہ تھا اور ایسے علاقے میں معاش کا ذریعہ بھی بارڈر سے ہی جڑا ہوتا ہے۔ جو دو وقت کی روٹی کیلئے میلوں دور سفر کرتے ہیں۔ حسن اور وسیم گاڑی میں بیٹھ کر سفر کیلئے روانہ ہوئے اور چلتے چلتے ایک دکان کے پاس رک کر حسن نے وسیم کو کچھ پیسے دیئے کہ پانی ،سگریٹ، اور اپنے لئے کھانے کی چیزیں لے لو۔ حسن سفر میں مسلسل سگریٹ پیا کرتا اس لئے وہ گاڑی میں ہمیشہ تین سے چار پاکٹ سگریٹ کے رکھا کرتا۔

ان تمام لوگوں کا کام بارڈر سے تیل لانے کا ہوتا تھا جو ایک دن میں ایک ٹرپ لگا کر خوشی سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے تھے تو اس طرح وہ روانہ ہوگئے اور ان کے ساتھ ایسے اور بھی گاڈیاں شامل تھیں جو بارڈر کی جانب جا رہی تھیں اور کچھ بارڈر سے تیل لے کر واپس تھیں۔

سخت گرمی نے وسیم کا وہ حال کیا ہوا تھا جیسے وہ ابھی غسل کر کے نکلا ہو۔ کچھ گھنٹے سفر کر کے وہ بارڈر کے نذدیک پہنچ چکے تھے لیکن آج کا منظر دیکھ کر حسن پریشان ہوا کہ آج ساری گاڈیاں کیوں روکی ہوئی ہیں۔ حسن بھی ان گاڑیوں کے پاس رک گیا۔ اور معلوم کرنے لگا کہ اصل قصہ کیا ہے ایسا تو پہلے نہیں ہوا ہے۔

حسن گاڑی کے اوپر چڑ گیا اور آگے کا منظر دیکھنے لگا
کہ لگ بگ تین ہزار کے قریب گاڈیوں کو بارڈر سیکیورٹی نے روک رکھا ہے اور نہ جانے دے رہے تھے اور نہ ہی اس طرف سے آنے دے رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا پیسے کیلئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو کوئی بارڈر کے بند ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہا تھا۔ سب اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر بس انتظار ہی کر سکتے تھے اور سب نے ایسا ہی کیا۔

اب منظر کچھ ایسا تھا جیسے کسی بڑے سے شہر میں مکمل ٹریفک جام ہو اور گاڑی آگے پیچھے کرنے کا بھی کوئی امکان نہ ہو۔ سیکیورٹی اہلکار ہر طرف اپنا خوف ظاہر کر رہے تھے کوئی ان سے گالیاں کھاتا تو کوئی مار مگر کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا اگر کچھ کیا جاسکتا تھا تو وہ صرف اور صرف انتظار تھا۔۔

ایک دن کا سفر دوسرے دن میں داخل ہوا لوگوں کے پاس اب پینے کیلئے پانی کی قلت پڑ چکی تھی اور کھانے کیلئے ڈبے والے مچھلی یا لوبیا جو بمشکل دو دن تک چل سکتے تھے کیونکہ ایسا کچھ ہوگا کسی نے سوچھا نہ تھا دوسرا دن بھی انتظار میں ہی گزر گیا۔
حسن نے گھر میں اطلاع کر دی کہ معلوم نہیں واپسی کب ہو مگر پریشان مت ہونا اور وسیم کی اماں کو بھی بتا دینا۔

لوگ اب غم اور غصے کا اظہار کر رہے تھے اور کچھ تو آپس میں لڑ رہے تھے۔ حسن نے وسیم سےکہا اگر کچھ دن اور جانے نہیں دیا تو پتہ نہیں یہاں کیا ہو جائے گا۔ سب لوگ بھوک اور پیاس سے تنگ آچکے تھے قریب ایک چھوٹا سا علاقہ تھا جن کے مرد حضرات اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو پانی دیا کرتے تھے۔

ایک دن کا سفر آخرکار ہفتہ پورا کر چکا تھا۔ مظلوم عوام جن میں حسن اور وسیم بھی شامل تھے جن کے
ساتھ ایک ہفتہ انتہائی دشمنوں والا سلوک کیا گیا۔ ایک طرف ہجوم کو دیکھ کر حسن نے وسیم کو وہاں بیھجا تاکہ معلوم ہوجائے کیا ہو رہا ہے۔ وسیم جب واپس آیا تو پتہ چلا کے وردی میں ملبوس لوگ گاڑیوں سے تیل اتار رہےہیں اور خود بیج رہےہیں اور جو خالی گاڈیاں ہیں ان کو بارڈر پار نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔

حسن حیران ہوا کہ ایسا تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا آخر رزق چھیننے سے ان کو ملتا ہی کیا ہے۔ لوگ آواز بلند کر رہےتھے کہ گولیوں کی چلنے کی آواز آئی اور سب اپنے گاڑیوں میں گھس گئے لوگوں سے یہ سننے کو ملا کہ کسی استاد کو ہاتھ میں گولی لگی ہے۔ ایک ہفتہ انتظار کے بعد سب کو خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔

حسن اور وسیم اگلے دن صبح کے وقت گھر پہنچ گئے ان کی حالت دیکھ کر سب سمجھ گئے تھے کہ ان کو خالی آنا پڑا ہے۔ کسی نے ان سے کچھ نہیں پوچھا حسن کی اماں نے دونوں کیلئے چائے بنائی تو حسن کے جیب میں ہزار کا نوٹ تھا جو اس نے وسیم کو دے دیا۔

حسن اور وسیم جن کا گھر آرام سے رات کو دن اور دن کو رات کیا کرتا تھا اب سب کے چہرے خشک پڑ چکے تھے کیونکہ ان سے ان کا ذریعہ معاش چھینا گیا تھا وہ لوگ جو روزگار پہ تھے وہ سب اب بے روزگار ہو چکے تھے۔

بے روزگاری نے حسن کو بے چین کیا ہوا تھا گھر کے حالات اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کرتے ہر روز
غربت کی وجہ سے خودکشی کرنا معمول بن چکی تھی جو اصل میں خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ غربت حسن کے ساتھ اور بھی بہت سارے حسن کا قتل کرے گی جب تک زمینی خدا مسلسل ان کے اوپر منڈلاتے پھریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.