بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، اتھل زون کی جانب سے زبان کی اہمیت پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

پریس سیکریٹری: سنگت زکریا شاہوانی

بی ایس او اوتھل زون کی طرف سے منگل کے روز 21 ستمبر کو زبان کی اہمیت پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد، زیر صدارت بی ایس او اتھل زون کے آرگنائزر نعمان اسحاق ،کیا گیا۔ جس میں بی ایس او شال زون کے سینئر رکن سازین بلوچ اور انکے ہمراہ حب زون کے ڈپٹی آرگنائزر رخسار بلوچ نے اعزازی مہمان کے طور پر شرکت کی۔

اسٹڈی سرکل کے افتتاح سے پہلے ایک تعریفی نشست ہوا جس کے بعد قومی شہداء کے یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور بعد ازاں اسٹڈی سرکل کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔

اسٹڈی سرکل میں ایس او کے آرگنآئزنگ باڈی کے رکن نعیم مومن بلوچ نے زبان کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کے کہ زبان کسی بھی قوم کی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم کھڑی ہے۔ جس کی پرورش اور نشوونما ہر فرد پر واجب آتا ہے جو ایک قوم ہونے کے دعویدار ہیں۔ کوئی بھی زبان جب معاشرے میں استعمال کم ہوگی تو نتیجتاً وہ آنے والے وقتوں میں قائم نہیں رہ پائیگی۔ اور بہت سی زبانیں انہی وجوہات کے بناء پر ختم ہوے ہیں اور کچھ ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔

یونسکو کی 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے وقتوں میں 90 فیصد زبانیں ختم ہونے یا آہستہ آہستہ دوسرے زبانوں میں مرج ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ جس کے مختلف ذرائع ہوسکتے ہیں, جیسے کہ قدرتی آفات، لوگوں کا ایک کم آبادیوں سے بڑی آبادیوں کی طرف ہجرت کرنا، اور سب سے اہم وجہ عالم گیریت ہو سکتی ہے۔

ایک زبان صرف بولنے کے عمل سے زندہ نہیں رہ سکتا جب تک اس زبان سے لکھنے کا عمل نہ لیا جائے، جیسے دنیا میں زبان ایسی بھی ہیں، جن میں ایک زبان جسے چاہنا کہتے ہیں، زبان کا بولنے والا صرف ایک انسان حیات ہے اور اسکی رحلت سے وہ زبان بھی مٹ جائے گی کیونکہ اس زبان میں کوئی بھی ادب سامنے نہیں آیا۔

کسی بھی قوم کو اپنے زبان کی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر کام کرنا ہوگا۔ زبان کی کو سیکھنا ہوگا اسے اپنے معاشرے سمیت ہر اس جگہ استعمال کرنا ہوگا جہاں رسائی ممکن ہو سکے۔ تاکہ زبان میں مقبولیت آئے، زبان کے بولنے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رفت برقرار رکھنے کے لیے کسی دوسرے زبان کی ضرورت نہ پڑے۔

آج اکثر نوآبادیاتی طاقتیں اس جہدوجہد میں لگی ہوئی ہیں کہ کسی بھی قوم پر مسلط ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے زبان پر قابو پانا۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب مادری زبان کی جگہ ایک غیر زبان کو ہر عام و خاص اور ہر گلی کوچے میں پھیلا دیا جائے۔ اور اس سے جو کسی قوم کی مادری زبان ہے وہ گھٹ کر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔

تو ان سارے مشکلات سے دو چار ہونے سے پہلے ہی کسی بھی قوم کو اپنے زبان پر ایک مضبوط گرفت رکھنا چاہیے اور اسکے فوائد یہ ہونگے کہ کوئی بھی نوآبادیاتی قوت قوم میں انتشار نہیں پھیلا سکتی۔ اگر کمزوریاں زیادہ ہونگی تو یہ قوتیں کسی بھی قوم کے ایک ہی زبان کے مختلف ڈائیلکٹس کو جواز بنا کر تقسیم در تقسیم کردیں گی اور ان پر حکمرانی کرینگی۔

تو زبان جو کہ قومی جُڑت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اس کے لیے فکرمند ہونا ہر قومی ممبر پر ضروری و لازم ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.