زنجیرون سے آزادی

تحریر: رخسار بلوچ

شام کے چار بجے تھے میرے ہاتھ میں کتاب اور چاۓ کا کپ تھا. پڑھتے پڑھتے میری آنکھ لگ گئی. نیند میں مجھے لگا جیسے کسی کی زور سے ہنسنے اور بات کرنے کی آوازیں میرے کانوں میں آہستہ آہستہ آرہی تھیں۔
تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے آنکھیں کھولیں تو برابر میں شائستہ اور سحر بیٹھی مجھ پہ ہنس رہے تھے۔ دونوں کو دیکھ کر میں بے ساختہ کہنے لگی ارے آپ کب آۓ تو سحر بولنے لگی ہمیں گھنٹہ ہو رہا ہے اب آپ تکلیف نہ کرو سو جاؤ اور پھر ہنسنے لگی. میری بہن نے پہلے سے ہی ان کو چاٸے پانی پلا دیا تھا.

سحر کہنے لگی کیا پڑھ رہی ہو تو میں نے کہا کچھ نہیں بس اپنے قوم کا ماضی ٹٹول رہی ہوں تاکہ بہتر مستقبل کو اپنی مرضی سے ڈھال سکیں۔ وہ ہنس پڑی کہ بانک کریمہ نے تیر مارا جو اب تم مارو گی۔ میں کہنے لگی بھلا یہ کیا بات ہوٸی سحر تم تو پڑھی لکھی ایک سمجھدار لڑکی ہو تم پہ یہ باتیں سوٹ نہیں کرتیں۔ اگر تم ھمگام نہیں بن سکتی ہو تو کم از کم اس طرح مایوسی کی باتیں کرکے رکاوٹ تو نہ بنو، وہ کہنے لگی ہاں ہاں اب بھاشن مت دو بہت سنی ہے ایسی باتیں. شائستہ خاموشی سے ہماری باتیں سن رہی تھی سحر کہنے لگی چھوڑو ان باتوں کو اور سناؤ کیا حال ہے پڑھائی کا اور آج کل سوشل میڈیا کیا چل رہا۔

شائستہ سحر کی بات کاٹتے ہوٸے کہنے لگی آپ لوگ کیوں میرا دل جلا رہے ہو کہ ہم پڑھے لکھے ہیں تو میں نے کہا کیوں آپ کا دل کیوں جل رہا ہے۔ وہ بولنے لگی ہاں دل تو جلتا ہے جب بات پڑھائی اور سیاست کی ہوتی ہے۔ میں نے تجسس بھرا سوال داغا کہ کیوں آپ نے پڑھاٸی نہیں کی ہے کیا۔۔۔۔؟ مجھے اندازہ نہیں تھا شاٸستہ کی زندگی کے بارے میں کیونکہ میں شائستہ سے ایک مہینہ پہلے ملی تھی شائستہ میری کزن سحر یعنی ( خالہ زاد بہن) کی سہیلی تھی وہ پنجگور سے کراچی اپنی امی کی علاج کے لیے آئی تھی مجھے اس کے چہرے پہ بہت سے سوالات اور شکایت تو دکھ رہی تھی لیکن مجھے اس کی زندگی کے اندر کی تلخی اور رنجش کا زرہ برابر بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کیا براداشت کر چکی تھی اور کیا کیا برداشت کر رہی ہے تو مجھے برداشت نہیں ہوئی میں بے چینی سے پوچھنے لگی شائستہ اگر آپ بُرا نہ مانو تو کیا آپ اپنے بارے بتا سکتی ہو. کیونکہ آپ میں ایک حسرت ہے شعوری حسرت جو روزانہ کی بنیاد پر اسکول و کالج کا چکر کاٹنے والوں میں بھی نہیں ہوتا۔

ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ ہنس کر کہنے لگی کیا سناؤں میری زندگی میں کیا ہے کہ میں ایک بے مقصد کی مگر روندی گٸی وجود ہوں جسے ہر پل کچل دیا گیا ہے، جسے کردستان کے یزیدی خواتین کی طرح مسلسل اذیت میں رکھا گیا ہے۔

میں فقط سات سال کی تھی جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا. میں اپنے ابا جان کی بہت لاڈلی تھی کیونکہ میں بہنوں کی سب سے چھوٹی تھی اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا م لیکن افسوس کہ وہ اپنا خواب پوری نہ کر سکا. اور افسوس اور شرمندگی تو مجھے ہے کہ میں بھی اُس کا ادھورا خواب پوری نہ کر سکی۔

میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ آخر کیوں آپ نہیں پڑھے ؟ سرکاری اسکول تھی آپ وہیں پڑھ لیتی تو وہ کہنے لگی ایک تو بلوچ سماج میں پیدا ہونا بھی لعنت سے کم نہیں اوپر لڑکی بنا کر پیدا کیا جانا تو فطرت کا ایک اور عذاب ہے۔

جب میرے ابا جان کا چالیسواں دن پورا ہوا تو اگلے دن میں صبح سویرے اٹھی اسکول کے لیے تیار ہو گئی دو سال تک امی اور بہنوں کی مدد سے میں اسکول جاتی رہی مگر تیسرے سال سالانہ چھٹیوں کے بعد جب میں نے اسکول کی وردیاں اور کتابیں مانگیں تو ایک دن میرے بڑے بھائی نے میرا بستہ چھین کر پھینک دیا اور کہنے لگا کوئی ضرورت نہیں پڑھنے کی کون پورا کرے گا یہ سب خرچہ ایک تو آپ لوگوں کو پالوں اور اب ایک اور نئی مصیبت کوئی ضرورت نہیں۔ بیٹھو گھر ماں اور بھابی کا کام میں ہاتھ بٹاؤ بڑی آئی پڑھنے والی. امی سے چلا کر کہا لگام دو اپنی اس ”رَن بیٹی“ کو۔

بستہ پھینکنا میری روح اور احساسات کو مجھ سے چھین لینا تھا، پالنے کا طعنہ دینا اپنے وجود پر ندامت اور پھر ”رَن“ کہنا تو ایسے تھا جیسے مجھے گردن کے نیچے سے لے پورے جسم کو مکمل روند کر لہو لہان کر دیا گیا ہو اور مجھے زندہ اس لیے رکھا گیا ہو کہ میں بس اذیتیں سہتا رہوں، لہو لہان رہوں مگر مجھے موت کا حق بھی نہ ہو۔ ایسے سمجھو میں ایک بلوچ لاپتہ فرد ہوں جسے نہ مارا جارہا ہے نہ ہی آزاد کیا جا رہا بلکہ مسلسل اذیتیں بڑھانے اور اس احساس کو تیز تر کرنے مسلسل کاوشیں ہو رہی ہیں۔

اس وقت میں پھر بھی چیخی چلاٸی، روٸی پیٹی کہ امی مجھے پڑھنا ہے امی مجھے انسان بننا ہے، امی بھی کیا کرتی وہ بھی تو مجبور تھی لیکن میرے میں زہن میں یہ نہیں آرہی تھی کہ وہ مجبور ہے میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ وہ کیوں مجبور ہے وہ تو ماں ہے وہ تو کر سکتی ہے لیکن افسوس کہ ماں نے بھی میرا ساتھ نہیں دیا یا پھر وہ خود زنجیروں میں جکڑی ایک غلام تھی، ایک ایسی غلام جو مجھ سے زیادہ تجربہ کار تھی۔

کچھ دنوں تک میں روتی رہی، آنسو بہاتی رہی، لیکن پھر بس کیا رونا مگر دل میں جو آگ لگی تھی وہ تو بس میں ہی جانتی تھی. ابو کے جانے کے بعد ہمارے جو گھر کے حالات تھے وہ دن بہ دن خراب ہوتے جارہے تھے۔

بھائیوں کی طرف سے بھی ہمیں کوئی توجہ نہیں ملتی تھی وہ اپنے زندگیوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے تھے ۔بیویاں بھی قیدی تھیں مگر ہماری طرح پَرلے درجے کے قیدی ھرگز نہ تھیں۔ پڑھانا تو دور کی بات ہمیں کھانا بھی قیدیوں کی طرح ملتا تھا جب باقی بھاٸی اور ان کے بیوی بچے کھا کر کچن سے نکلتے تو میں اور میری امی، بہن رخسانہ اور فرحانہ ساتھ جا کر بچا کھچا کھالیتے تھے۔ یہ اجازت اس لیے تھی کہ برتن دھونے، گھر صاف کرنے کپڑے دھونے وغیرہ کے سارے کام ہم تینوں بہنوں پر تھے۔ یہ درد بس ہم ہی جانتے تھے ایسا بھی وقت آتا تھا کے ہم بھوکے پیٹ ہی سوتے تھے. رخسانہ اور فرحانہ سمجھدار تھے وہ اپنے احساسات اور آنسو چھپا لیتی تھیں ایک دوسرے سے۔ ہم سب سے وہ تنہا روتی تھیں مگر میں ان کے سامنے روتی تھی ان کے درد و اذیت کو میرے آنسو مزید بڑھاوا دیتے تھے۔

شاٸستہ ھچکیاں باندھ کر کہنے لگی کبھی کبھی میرے دل میں سیاست اور بغاوت کا بھی جنون جاگ اٹھتی تھی لیکن کر بھی تو کیا سکتی تھی پڑھی لکھی تھی نہیں کہ کچھ کر سکتی. رشتے والے بھی ہم بہنوں کو یہ کہہ کر ٹھکراتے تھے کے ہم جاھل ان پڑھ ہیں۔میں تو خود کو سب پہ بوجھ سمجھنے لگی آخر میرا اور میرے بہنوں کا قصور کیا ہے ہر طرف سے ہمیں ٹھکرایا جاتا ہے. مجھے سیاست کا تو پتہ نہیں لیکن جب بھی کوئی ریلی وغیرہ ہوتی ہے تو میرے دل میں بس اپنی تلخ زندگی یاد آجاتی ہے۔

اس دوران قیامتیں مسلسل ہم پر ٹوٹ پڑتی رہیں۔ روحانی اذیتوں کے ساتھ جسمانی اذیتیں بھی بڑھتی گٸیں۔ میری بنہیں فرحانہ او رخسانہ جو اب کڑھاٸی بلوچی دوچ کرکے کچھ کمانے لگی تھیں تاکہ کپڑوں چپل اور دارو دوا کا بندو بست ہو سکے۔ ایک دن بڑے بھاٸی کو پتہ چل گیا اور اس نے بہنوں کے کام کو اپنی غیرت و انا پر وار سمجھا اور دونوں کو وحشیانہ انداز میں پیٹا۔ کچھ دن بعد رخسانہ کی شادی طے کرکے تربت میں ایک بندے کے ساتھ طے کر دی۔ رخصتی کے چھ ماہ بعد اس گھر سے بھی ہمارے لیے نیک سوغات کی بجاٸے رخسانہ ”بد چلنی“ کا دھبہ اپنے پاک دامن پر لیے آگٸی۔ فرحانہ جو کہ بھاٸی کے مار پیٹ کے بعد سے تندرست نہ ہو سکی تھی کہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوٸی۔

اب ہمارے پاس نہ دواٸی کے پیسے تھے اور نہ ہی ہم فرحانہ کو کسی کے ہاں لے جا سکتے تھے۔ رخسانہ ٹوٹ کر بکھر چکی تھی، وہ بس گم سُم رہتی تھی ایسا کہ جیسے کسی بہت بڑی آگ نے اس کو جھلس کر رکھ دیا ہو اور اس نے اپنی وجود کہیں کھو دی ہو۔ فرحانہ آخری بار دو ھفتے تک مسلسل کرب میں مبتلا رہی اور ایک دن اپنے وجود سے آزاد ہوگٸی۔ آنسو، درد، کرب رنجشیں اذیتیں، تلخ یادیں، محرومیاں ہمارے حصے میں ڈال کر خود زندگی سے نجات پا گٸی، غلامی کی زنجیروں سے آزادی پاگٸی۔ مگر اس کی تکلیفیں، دواٸی کےلیے سسکتی رہنا، رخسانہ کو دیکھ کر تڑپتی رہنا، ماں سے شکوہ کرنا کہ ہمیں تم نے جَنا کیوں سب میرے حصے میں آگٸے۔ رخسانہ تو اب بس ایک زندہ لاش تھی جس نے دو نوالے لے کر غلامی کو جاری رکھنا تھا۔

قیدی تو پھر قیدی ہوتے ہیں ان کو فقط زلت اور اذیتوں بھرے زندہ رہنے کی آزادی ہوتی ہے۔ رخسانہ وہی وجود بن چکی تھی۔ ایسا کوٸی لمحہ نہیں گزرتا ہے کہ اس پر طنز نہ کیا گیا ہو، اسے بد کرداری کے طعنے نہیں دیے گٸے ہوں۔ جب کہ آج تک اس سے کسی نے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا حقیقت میں ہوا کیا تھا اس کے ساتھ۔ اس کی زبان سے سچاٸی کسی نے سننے کی زحمت تک نہیں کی، اس کو کسی نے سننے لاٸق سمجھا ہی نہیں کیونکہ وہ عورت ہے اور عورت کی بات کا کیسا یقین اس میں کیسی سچاٸی۔ جب غیرت مند مرد نے ”بد چلن“ کہہ دیا تو بس کہہ دیا وہی سچ ہے۔

یہ کہہ کر شاٸستہ اچانک سے قہقہہ لگاٸی اور کہنے لگی یہ ہمارے غلامی کی داستان ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کسی کو، مگر میں رخسانہ کے ساتھ لمہ بہ لمحہ مرتی ہوں۔ رخسانہ بھی فرحانہ کی طرح اس زندگی سے ان غلامی کی زنجیروں سے نجات چاہتی ہے۔ موت کو گلے لگانا چاہتی ہے۔ مگر میرے بارے سوچ کر کہتی ہے کہ تمہیں اذیتوں میں چھوڑ کر کیسے میں چلی جاٶں۔ ہمیں نہ زندگی مرضی کی ملی ہے اور نہ مرضی کی موت نصیب میں ہے۔

شاٸستہ کی داستان سُن کر میں اور سحر سکتے میں آگٸے، کٸی لمحوں تک کسی نے کچھ نہیں کہا اور وہ دونوں کب مجھے خدا حافظ کہہ کر جا چکی تھیں مجھے احساس تک نہیں ہوا۔

تب میں نے سوچا یہ قید و بند، یہ زنجیریں یہ مقروض مجروح اذیت بھری سانسیں، یہ وجود سے بیزار زندگی، فقط بلوچ عورت کے حصے میں کیوں ہیں آخر۔ ہم کب نجات پاٸیں گے، ہم اس دو طرفہ جبر و بربریت سے بغاوت کب کریں گے۔ ہم اپنی نجات کےلیے کتنی رخسانہ جیسی معصوم لڑکیوں کی زندگی کو جہنم بناٸیں گے۔ ہم کب تک اپنی زندگیوں کے ساتھ کِھلواڑ ہوتے دیکھتی رہیں گی۔ ہم کب ان بن دیکھے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالیں گے۔ ہم بلوچ لڑکیاں کب انسان سمجھی جاٸیں گی۔ کب ہم اپنے حصے کی لڑاٸی مجموعی طورپر لڑیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.