عورت مارچ، بنیادی منشور

تحریر: رضوانہ بلوچ

عورت مارچ کا منشور یہ نہیں کہ مردوں کو نیچا دکھانا، بلکہ عورت مارچ کا منشور یہی ہے کہ عورت کو سماجی، فطری، اخلاقی تعلیمی آزادی اور حقوق چاہییں۔ اسے معاشرے میں برابری چاہیے۔ عورت پر پچھلے پانچ ھزار سال سے مرد ہی حکمرانی کرتا آ رہا ہے، اب اس تحکمانہ حکمرانی کو شراکت داری میں بدلنا ہے۔ یہ ہے عورت مارچ کا منشور۔

اس دھرتی پر اس سماج میں بہت زیادہ اذیت برداشت کرنے والی مخلوق عورت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ کٸی اور سماجی جابرانہ نظام بھی عورت پر مسلط کر دیئے گٸے ہیں۔ مثلاً چھوٹی عمر میں شادیاں کروانا، ناپسند کی شادی کروانا، غیرت کے نام پر قتل کرنا، لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور بیٹے کے چکر میں نو نو دس دس بیٹیاں پیدا کرنا وغیرہ۔

بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کے منہ پہ خاموشی کا تالا لگا دیا جاتا ہے یہ کہ اسے سماج میں شوہر کا ہر ظلم برداشت کرنا ہے تب جا کے وہ ایک عزتمند شریف، نیک اور خاندانی لڑکی کہلائے گی۔

کہیں نہ کہیں ایک عورت بھی اس ظالم سماج کے ساتھ شمار ہوتی ہے جب وہ اپنی بیٹی کو وہی سکھاتی ہے جو بچپن میں اس کو سکھائی گئی تھی۔ یہ سماج عورت کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک ظالم کو مسلط کرنا چاہتا ہے اگر پہلے باپ اور بھائی ہے تو بعد میں شوہر اور بیٹا ہوں گے۔
اگر کوئی لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرئے تو اسے بد چلن بے غیرت قرار دیں گے اسے کسی بھی نکمے کے ساتھ بیاہ دے کر مزید اس پہ ظلم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی بھاگ کر شادی کرے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں۔ اگر مرد اپنی پسند کا اظہار کرے تو اس کی پسند سر آنکھوں پر اگر وہ بھاگ کر شادی کئے تو اس کو گھر میں جگہ دیتے ہیں پورا خاندان اس کی حفاظت پر لگا ہوتا ہے مگر لڑکی ایسی حرکت کرے تو بد کردار مرد بھی اس کے قتل کرنے کو جاٸز و درست قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر کسی والدین کے صرف بیٹیاں ہو تو اسے لاوارث قرار دیتے ہیں کہ اس کا کوٸی وارث ہی نہیں۔ کیونکہ لڑکیوں کو کسی اور مرد کی ملکیت میں دینا جو ہوتا ہے۔

اولاد کو پالنے میں صرف عورت کو ہی زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اگر اولاد بگڑ جائیں تو الزام ماں کو دی جاتی ہے۔ بیٹا اگر غلط راستے پر چل پڑے تو قصور وار ماں ہے۔
ہمارا معاشرہ مرد کو بے عیب یعنی فرشتہ قرار دیتا ہے چاہے وہ بہرا ہو گونگا ہو نکما ہو لیکن اس کے لیے خوبصورت سے خوبصورت لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے۔ ہاں اگر کسی لڑکی میں ذرہ برابر عیب ہو تو کسی نکمے کو بھی اس کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔

اس جابرانہ سماج میں عورت ہمیشہ جوتی کی نوک پے رکھی گئی نہ اس سے فیصلے لیے گئے نہ اسے فیصلہ سازی کرنے میں حق نماٸندگی دی گٸی، مار پیٹ ظلم سب کچھ سہہ کر بھی وہ اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ قصور وار ہمیشہ عورت ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں جب اسے رخصت کیا جاتا ہے تو اسے یہی بولا جاتا ہے کہ اب اُس گھر سے ہی تمھارا جنازہ نکلنا چاہیئے۔ اولاد نہ ہونے پر عورت کو ہی بانجھ قرار دی جاتی ہے بیٹی ہونے پر بھی عورت ہی منحوس کہلاتی ہے۔ اسے تو کھل کر رونے کی بھی آزادی نہیں۔

اس جابرانہ سماج میں ایک غلام مرد اپنی طاقت کا زور اپنے عورت پہ دکھاتا ہے۔ طاقت ور مرد وہ ہوتا ہے جو اپنی عورت کا ہاتھ پکڑ کے اسے اس فرسودہ نظام سے نکالے اور اسے اپنے ہم کوپہ ہمسفر بنا کر چلے، اسے خودمختاری دے، اور اسے اپنے ساتھ قدم ملا کر چلنے پر داد دے اور سماج کو دکھائے کہ اصل طاقت یہ ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عورت کو آزاد کر کے پورے سماج کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک عورت اپنے مرد کے ہم کوپہ ہوتی ہے تو اسے اس کی آزادی کی چابی مل جاتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.