لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد ناقابل قبول ہے، لواحقین و بلوچ سیاسی کارکنان کی جدوجہد قابل تحسین اور نوجوانوں کی بازیابی مستقل مزاج مزاحمت کی فتح ہے: بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سے بلوچ خواتین اور بچوں کے پر امن احتجاج پر تشدد، غیر قانونی گرفتاریوں اور بلوچ طلباء کے تسلسل کے ساتھ ماورائے عدالت جبری گمشدگیوں کی شدید مزمت کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی طرف سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی اور بلوچ طلبا و خواتین کے پرامن احتجاج پر انتہا درجے کا غیرانسانی تشدد اور گرفتاریاں بلوچ عوام سے ان کے احتجاج کے جمہوری حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔ اس گھٹن، بربریت اور جبر تشدد کے خلاف واٸس آف بلوچ مسنگ پرسنز کی مستقل مزاج و دلیرانہ جدوجہد اور سنگت دودا بلوچ و گمشاد بلوچ کے خاندان کا ہمت و حوصلہ ہی دونوں نوجوانوں کی بازیابی کا سبب بنے ہیں۔ نوجوانوں کی بازیابی مستقل مزاج و جرأت مندانہ مزاحمت کی فتح ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ کراچی میں لاپتہ افراد کے لواحقین بالخصوص عورتوں اور بچوں کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا کر گھسیٹنا اور گرفتار کرنا اس بات کی واضح نشانی ہے کہ بلوچ کے خلاف ان حاکموں کی جبری پالیسیوں میں کوٸی معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آٸی ہے۔ بلکہ آٸے روز اس میں مسلسل شدت لا کر بلوچ قوم کو سیاسی و سماجی طور پر محصور رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے بلوچ دشمن جراٸم کا مرتکب رہی ہے چاہے وہ ستر کی دہاٸی میں پارٹی کے بانی کی حکومت ہو یا کہ 2008 میں برسرِ اقتدار رہنے والا دورانیہ، ہر دور میں اس جماعت نے بلوچ نسل کشی کی روایت برقرار رکھی ہے۔ ستر کی دہاٸی میں قباٸلی علاقوں میں بلوچوں پر فوج کشی، 2008 کے بعد جبری گمشدگیوں میں تیزی اور مارو پھینکو کی پالیسی اور حالیہ دور میں کراچی میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں اسی جماعت کی کارستانیاں اور اصل آقاٶں کو خوش کرنے کی کوششیں رہی ہیں۔ بلوچ تاریخ میں اس جماعت کو ایک عوام دوست جمہوری جماعت کی بجاٸے ایک غاصب اور پرتشدد بلوچ مخالف جماعت کے طور پر یاد رکھا جاٸے گا۔

بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ ایک طرف مین اسٹریم پاکستانی میڈیا ھندوستان میں بی جے پی سرکار کے جابرانہ فاشسٹ اقدامات پر مسلسل چیختی ہے تو دوسری طرف یہی منافق میڈیا بلوچ خواتین کے ساتھ ہونے والی توہین آمیز سلوک اور جبر و تشدد کرکے ان کی گرفتاری کو بڑی ڈھٹاٸی سے چُھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ حاکم و محکوم اور ظالم و مظلوم کی اس جدوجہد اور لڑاٸی میں مین اسٹریم پاکستانی میڈیا بھی ہمیشہ سے حاکم کے ساتھ رہی ہے اور آج بھی انہی کے دفاع اور گُن گانے میں مصروف ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل بلوچ طلباء و عوام کو بلا کسی تعطل جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا جارہا ہے، اور رواں سال ان واقعات کی شدت میں مزید اضافہ آیا ہے، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ متاثر بلوچ طلبہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس کا ماحول جنم لے چکا ہے، اور بلوچ طلباء اپنے تدریسی عمل سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کراچی میں جبری گمشدگی کی حالیہ لہر نے بلوچ طلبا و طالبات کو خوف و ھراسانی میں اس حد تک مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اپنے امتحانات دینے کےلیے بھی تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کر پاتے کہ کہیں جبری گمشدگی کا شکار نہ بناٸے جاٸیں۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی سمیت پر امن احتجاج کے حق پر قدغن کے خلاف ہمیشہ کی طرح اپنی مزاحمت جاری رکھے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.