بلوچستان میں سیلابی تباہ کاریوں کا ازالہ کیا جائے۔ طلبا کی فیس فوری ختم ہو: سازین بلوچ

بی ایس او کی مرکزی رہنما سازین بلوچ نے زونل رہنماؤں سمیت تربت پریس کانفرنس میں صحافیوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں اور حکومتی ذمہ داریوں پر بیانیہ دیا، جس کے ساتھ انہوں نے طلبا کی فیسس ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن ہمیشہ آپ صحافی حضرات کا شکر گزار رہا ہے کہ ہماری آواز عوام تک پہنچانے کا ذریعہ ہی آپ بنے ہیں اور ہمیں ماسز سے جوڑنے میں آپ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس مثبت و اہم کردار پر ہم آپ صحافی حضرات و میڈیا نماٸندگاں کے مشکور ہیں۔

معزز صحافی حضرات

اس عالمی سامراجوں کی معاشی چپقلشوں اور یوکرین، یمن،مالی، شام وغیرہ میں گرم جنگوں نے محکوم اقوام عوام کی حالت زار بد سے بد تر کر دی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ان سامراجی طاقتوں کے پاس جنگی جنونیت و انسان کش جنگوں کے لیے کھربوں ڈالرز ہیں مگر بھوکوں، بے گھروں، بیماروں کےلیے ایک ڈالر تک خرچ کرنے سے انہیں موت پڑتی ہے اور ان کی سامراجیت کو زوال ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ یوکرین، تاٸیوان و اسراٸیل وغیرہ میں جنگی جنونیت کےلیے اربوں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اس جنگی جنونیت کی واضح ترین مثال ہے۔

معزز صحافی حضرات

عالمی سامراجیت کا قاٸل سرمایہ دارانہ نظام اس وقت ایک ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ دنیا ایک مخصوص سفاک اقلیت کے لیے سُورگ بنا دیا جاچکا ہے جب کہ باقی مجموعی انسانیت کے لیے اس نظام کے تحت یہ دنیا نرگ بن چکا ہے وہیں اس 90 فیصد انسانی آبادی کےلیے فقط بھوک، افلاس، بزگی و بدحالی اور تذلیل کن زندگی و اذیت ناک موت کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا۔

لوٹ کھسوٹ، قبضہ گیری اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہی ہیں جس کی بدولت آج ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانیت زیست و موت کے کشمکش سے دو چار ہے۔ انسانیت کی اس اقلیت کی لوٹ کھسوٹ اور کارپوریٹ سامراجیت کی عیاشیوں و سفاکیوں کا خمیازہ تیسری دنیا کے محکوم اقوام و طبقات بھگت رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی بدولت لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک و بدحالی تباہی و بربادی اور المناک اموات کا شکار ہیں جب کہ سرمایہ داروں و سامراجی پالیسی سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

معزز صحافی حضرات

پاکستان میں ہونے والی حالیہ سیلابی تباہ کاریاں بھی اسی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اور ایسی تباہ کاریوں کی شدت پھر مزید تباہ کن اس وقت ہوتی ہے جب حکمران کالونیٸل نفسیات رکھتے ہوں اور محکوم اقوام و طبقات پر بزور شمشیر اپنا تسلط برقرار رکھنے، مسلسل انہیں کچلنے کےلیے کوشاں ہوں اور جنگی جنونیت میں مبتلا ہوں۔

حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ تباہ کاریاں بلوچستان اور سندھ میں ہوٸیں۔ بلوچستان میں اس وقت لاکھوں لوگ بے گھر و بھوکے اور بیماریوں میں مبتلا ہیں، سیکڑوں لوگ حاکموں کی غفلت و سفاکیت کی بدولت زندگی سے محروم ہو چکے ہیں اور اس وقت کسی بھی طرح کا حکومتی امداد بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔

معزز صحافی حضرات

بلوچستان کو ہمیشہ ایک کالونی کے طورپر رکھنا اور اس میں اموات کو مسلسل پھیلاتے رہنا حکمرانوں کی انسان دشمن و بلوچ دشمن پالیسی رہی ہے۔ اس تباہ کاری کو بھی ہمارے حکمران سنجیدہ لینے کی بجاٸے الٹا بلوچ کی بدحالی و بزگی کو بڑھانے کا سبب بنا رہے ہیں۔ امداد دینے اور سیلاب زدہ علاقوں کے بحالی کی بجاٸے ہمارے حکمران لاچار و بے بس عام بلوچ بزگر و شوان کی تذلیل کر رہے ہیں اور ان مزاق اڑا رہے ہیں۔ جس کی ایک واضح ترین اور شرمناک مثال حالیہ دنوں میں واٸرل ایک ویڈیو ہے جس میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راشن پھینک کر انہیں ضاٸع تو کیا جا رہا ہے مگر عام بد حال عوام تک انہیں عزت سے پہنچانے سے انہیں موت پڑتی ہے۔ لاکھوں بےگھروں، بھوکوں کو بنیادی ضروریاتی سامان و راشن پہنچانے اور ان کی زندگی بحال کرنے کےلیے ان سفاک حکمرانوں کے پاس وساٸل نہیں مگر بلوچ کو مارنے اسے کسی بھی کونے اٹھانے لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاش پھینکنے میں انہیں زرا سی بھی دیر نہیں لگتی کیونکہ ان کی تمام تر کاوشیں اور زوراوری بلوچ کو مٹانے میں لگی ہوٸی ہے۔

معزز صحافی برادری

اس سیلابی بحران سے پہلے بھی بلوچ سماج مجموعی طور پر تباہ حال تھی اور اس آفت نے اس بدحالی کو تباہی و بربادی میں بدل دیا ہے۔ اس وقت سیلاب کی وجہ سے لوگوں کے گھر زمین بوس ہو چکے ہیں، فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی مر چکے ہیں، کھانے کچھ نہیں بچا۔ اس تمام تر تباہی کا اثر پہلے سے تباہ حال تعلیمی نظام پر پڑے گا اور تباہی مزید شدت اختیار کرے گا۔

اس وقت ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ایک کالونیٸل تعلیمی نظام ہے جس میں طلبہ کو فقط پیروی کرنا سکھایا جاتا ہے مگر سوال و تنقید اور تحقیق و احتساب پر مکمل طور پر قدغن لگاٸی گٸی ہے۔ آٸے روز نیو لبرل پالیسیوں کے تحت تعلیمی اداروں کو سرمایہ داروں کی جھولی میں پھینکنے کی کاوشیں ہوتی ہیں، تسلسل سے فیسوں میں اضافہ جب کہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ پبلک تعلیمی اداروں کو اتنا دبایا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت مالی دیوالیے کا شکار ہو چکی ہیں اس وقت ان کے پاس اساتذہ و دیگر سپورٹنگ اسٹاف کو تنخواہیں دینے کےلیے بھی پیسے نہیں۔

اس تمام تر تعلیم دشمنی کا خمیازہ عام مجبور طالب علم بھگت رہا ہوتا ہے اور آخر کار مجبور ہو کر اس کلرک پیدا کرنے والے تعلیمی نظام سے بھی کنارہ کش ہو جاتا ہے۔

معزز صحافی حضرات

اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ان ظالمانہ و جابرانہ پالیسیوں کو فوری طور پر ترک کریں اور بلوچستان میں سیلابی تباہ کاریوں کا سنجیدگی سے جاٸزہ لے کر ھزاروں لوگوں کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو خصوصی گرانٹس جاری کرکے ایک سال کےلیے طلبا کی فیسیں معاف کردیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.