علم و مزاحمت، عَہد کی ضرورت

تحریر: بچکند بلوچ

آج کے اکیسویں صدی میں جب بات ترقی اور آگے بڑھنے کا ہوتا ہے تو علم، ٹیکنالوجی، جدید ساٸنس و نظریات پر عبور حاصل کرنا ہی ذہن میں بنیادی شراٸط بن کر ابھر آتے ہیں۔ کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد شے ہے جو محکوم کو حاکم کے ظلم کے خلاف مزاحمت اور انسان کی شعوری سطح کو اُجاگر کرتا ہے۔ راہ تعلیم واحد راستہ ہے جو بنی آدم کو اس کے بنیادی اصولوں، اس کے ذمہ داری اور اس کے اندر ایک شعوری ارتقاء پیدا کرتا ہے کہ وہ زندگی کیوں اور کس طرح گزار رہا ہے۔ ہر فرد کو ہوا اور خوراک کے بعد تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کا فلسفہ سمجھ سکے۔ یقینا زندہ رہنا ہی فقط کافی نہیں کہ زندگی کو ایک بہتر مقصد دینا، اور مقصد کے تحت گزارنا ہی بہتر انسان ہونے کی صفت ہے۔

لیکن آج کے سفاک سرمایہ دارانہ دور میں علم بھی ایک منافع بخش پروڈکٹ بن چکا ہے جس پر ایک اقلیتی حاکم طبقہ کی مکمل اجارہ داری ہے۔ وہ طبقہ جو انسانیت کا خون پسینہ نچوڑ کر، اس کے جذبات، احساسات، محنت بعض اوقات اس کا قتل کرکے اپنی وحشیانہ آساٸشین پوری کرتا ہے اور عام انسان جو انسانی آبادی کی اکثریت ہے تعلیم جیسے بنیادی انسانی سہولت کےلیے بھی در بہ در ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے، اسے مسلسل احتجاج کرنا پڑتا ہے، مسلسل ہست و زیست کے کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی حال بلوچ طلبہ کا ہے جو ہمیشہ سڑکوں پر پٹخ دیے جاتے ہیں، بنیادی علمی سہولتوں سے محروم کرکے احتجاج پر مجبور کیے جاتے ہیں۔

بلوچستان ریاستِ پاکستان کا 44٪ رقبہ ہونے اور مالی و ساحلی اور قدرتی وسائل سے مالامال سرزمین کے باوجود کالونیٸل پالیسیوں کی وجہ سے غربت و پسماندگی کی انتہاٶں میں دھنسی جا چکی ہے۔ بلوچ قوم اور طلباء تعلیم اور زندگی کے دیگر بنیادی حقائق سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب بلوچ طلباء اپنے حقوق کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو انہیں جواب میں لاپتہ، تشدد، اور غیر قانونی کارروائی کے صورت میں میسر ہوتا ہے جو ایک غیر منصفانہ عمل ہے ایک قوم کے مستقبل کا دارومدار باشعور نوجوان طبقے کے کندھوں پر ہوتا ہے تو وہی نوجوان طبقہ تعلیم سے روبرو ہو کر لاپتہ کیوں کردیا جاتا ہے۔۔۔۔۔؟

اس ملک میں جب جب بلوچ یا پشتون طلباء اپنے حقوق کا سوال پوچھتے ہیں تو انہیں یونیورسٹی اور کلاس رومز سے بھکاری ہونے کا طعنہ دے کر نکال دیا جاتا ہے مگر دوسری طرف اسی قوم کے سرزمین کو لوٹ مال کر کے دوسرے صوبوں کے ایجنٹوں اور سہولیات فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔

بلوچستان کو اصل حاکموں کی ایما پر بدعنوان نا اہل و بے ایمان ٹولیوں کی جھولی میں جھونکا گیا ہے اور ایسا کوٸی ادارہ نہیں جہاں بدعنوانی و نا اہلی اپنے عروج پر نہ ہو۔ حالت زار یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بلوچستان حکومت ازخود ڈیفالٹ کرنے کو ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایسے بد عنوان لوگ مسلط کیے گٸے ہیں جو اداروں کو مسلسل یرغمال بنا کر لوٹ رہے ہیں اور طلبہ کی زندگیوں کو داٶ پر لگا رہے ہیں۔ ایسا کوٸی تعلیمی ادارہ ہی نہیں جہاں طلبہ سکون سے پڑھاٸی جاری رکھ سکیں اور اپنی تخلیقی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ آٸے روز بنیادی حقوق کےلیے طلبا تحریکیں جنم لیتی ہیں اور بد قسمتی سے بڑی سفاکیت کے ساتھ کچل دی جاتی ہیں۔

اسی طرح بلوچ طلباء مسلسل منظم منصوبہ بندی کے تحت تشدد اور لاپتہ ہونے کے خوف اور احساس میں کشمکش میں مبتلا کیے گٸے ہیں۔ بلوچ طلباء گزشتہ دو دہائی سے اپنے حق تلفی برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد اور ٹارچر سیل کے عمل بھی سہہ رہے ہیں۔ حالات اور معاملات آۓ دن ایک نہ ختم ہونے والے واقعات نقش عبرت بنے ہوئے ہیں چاہے وہ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے لاپتہ کروانا ہوں یا تشدد کرنا یا فیک انکاؤنٹر کرنا معمول زندگی بن کر رہ گیا ہے۔ یونیورسٹیاں بندوق بردار فورسز کا کہنہ مشق بنے ہوٸے ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف بندوق بردار رہاٸش پذیر ہیں بلکہ وہ آٸے روز تعلیمی اداروں میں چڑھ دوڑتے ہیں اور طلبا کو خوف و ھراساں کرکے مسلسل تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں جس کی ایک واضح مثال کل بلوچستان یونیورسٹی میں فورسز کی ایک بڑی تعدار میں موجودگی کا واٸرل ویڈیو ہے جس میں وہ بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا پر تشدد کرتے دکھاٸی دے رہے ہیں۔

یہ تمام تر جبری عوامل، تعلیمی اداروں پر بندوق برداروں کا تسلط، خوف و ہراسانی بلوچ سماج کے اندر ایک اجتماعی وجودی بحران کا سبب بن چکے ہیں جس کی بدولت آٸے روز خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

اس جبر و بربریت سے نجات کا واحد حل طلبا کی نظریاتی بنیادوں پر اتحاد و اتفاق اور مزاحمت میں ہے۔ شہید فدا بلوچ کے اتحاد و جدوجہد کے مزاحمتی فلسفے پر کار بند ہو کر ہی اس جبر و بربریت میں نجات پاٸی جا سکتی ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے تمام تر بلوچ طلبا تنظیمیں قومی، نظریاتی، فکری و دانشمندی اسلحوں سے لیس ہوں اور اپنے زاتی، گروہی، مفادات کو یکسر نظر انداز کرکے ایک مزاحمتی قوت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر آج بھی ہم اپنے زاتی اناٶں کی تسکین اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھچاٸی باز نہیں آٸے اور ایک دیگر مزاحمتی طلبہ تحریکوں کے ساتھ خود کو جوڑ نہیں پاٸے تو بلوچ تاریخ میں ہمارا ذکر بھی جہنمی انا پرستوں اور زاتی مفادات کے گرد چکر کاٹنے والے مجرموں میں ہوگا نا کہ شہید حمید و شہید فدا کے مزاحمتی صف میں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.